استنبول (جیوڈیسک) فرانس کے مشہور اخبار Le Monde نے ترکی میں 31 مارچ کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی روشنی میں صدر رجب طیب ایردوآن کے اقدامات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے۔
اخبار کے مطابق اتوار 24 مارچ کی شام نشر ہونے والے ٹی وی انٹرویو میں ایردوآن نے مختلف تجاویز پیش کیں۔ ان تجاویز میں استنبول میں ایک قدیم چرچ آیا صوفیا کو مسجد آیا صوفیا کا نام دینا شامل ہے۔ ترک صدر نے 31 مارچ سے قبل کے عرصے میں اپنے قدامت پسند انتخابی کیمپ سے وعدوں کو کئی گنا بڑھا دیا ہے۔ اقتصادی کساد بازاری کے بیچ اس کیمپ کے ایردوآن سے منحرف ہو جانے کا بھی اندیشہ موجود ہے۔
فرانسیسی اخبار کے تجزیے کے مطابق ایردوآن نے کے انتخابی پروگرام میں ترکی کی سابق خاتون وزیراعظم تانسو چلر (1996-1993) کو مہمان خصوصی بنایا گیا۔ ایردوآن نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ والوں کے لیے اپنی دھمکیوں کو دہرا کر رائے عامہ کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کی کوشش کی۔ ترک صدر نے نیوزی لینڈ میں دو مساجد پر ہونے والے دہشت گرد حملوں سے فائدہ اٹھانے کی خاطر 25 اپریل 1915 کو دردنیل کے معرکے کی یاد دہانی کرائی جس میں آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سمیت اتحادی افواج ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئی تھیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ 31 مارچ کو ہونے والے انتخابات ترک صدر کے لیے تشویش کا باعث ہیں۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران اجتماعات کے مسلسل انعقاد سے خود کو تھکا ڈالا ہے گویا کہ یہ ان کی بقاء کا مسئلہ بن چکا ہے۔
اخبار نے سروے رپورٹوں کے حوالے سے بتایا ہے کہ ترکی کے کئی شہروں انقرہ، اضنہ، انطالیہ، مرسین بورصہ اور استنبول میں ایردوآن کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے امیدوار خود کو کمزور پوزیشن میں دیکھ رہے ہیں۔ ایردوآن 1994 میں اپنے آبائی شہر استنبول کے میئر منتخب ہوئے تھے۔ اس شہر سے انتخابی معرکے میں شکست ایردوآن کے لیے ایک بڑا المیہ ہو گی۔ تاہم سابق وزیراعظم بن علی یلدریم کے لیے یہ ایک موقع ہو گا جو اس شہر سے اپنی متوقع کامیابی کے حصول کے واسطے کوشاں ہیں۔
اخبار کا کہنا ہے کہ 8 کروڑ کی آبادی والے ملک ترکی میں استنبول شہر میں دس لاکھ کے قریب افراد بستے ہیں ،،، اور ملک کے لیے اقتصادی اور مالیاتی جگر گوشے کی حیثیت رکھنے والے شہر سے ناکامی کا منہ دیکھنا جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے لیے بڑی حد تک تباہ کن ثابت ہو گا۔
انتخابات میں(CHP) اور(Iyi Partisi) کے اتحاد کو امید ہے کہ وہ انتخابات کے نتائج آنے پر ایردوآن کی جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کے بعض گڑھ اپنے قبضے میں لے چکی ہو گی۔ تاہم فرانسیسی اخبار کے تجزیے میں بتایا گیا ہے کہ سرکاری میڈیا صدر ایردوآن کے اجتماعات کے سوا کسی کو کوریج نہیں دے رہا ہے۔
کبھی تو ایردوآن مختلف صوبوں کے شہروں میں بس میں سوار ہو کر اپنے مداحوں میں چائے کے پیکٹ تقسیم کر رہے ہوتے ہیں اور کبھی حکومت نواز ٹیلی وژن یورپی یونین کے مختلف عہدے داران کے خلاف ایردوآن کے اشتعال انگیز بیانات نشر کر رہا ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں ایردوآن ترک اپوزیشن رہ نما کمال اولو اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کی سکریٹری جنرل میرل اکشینار کو “دہش گرد” قرار دیتے ہیں۔ ان دونوں شخصیات کے خلاف عدالتی کارروائیاں بھی شروع ہو چکی ہیں۔ انقرہ کے حلقے میں پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار منصور یافاش بھی عدالتی کارروائی کی لپیٹ میں ہیں۔ وہ انتخابات میں نامزدگی کے بعد سے حکام کے لیے ایک ڈراؤنا خواب بن چکے ہیں۔
لے موند اخبار کے مطابق ایردوآن نے اتوار کے روز بینکاروں پر اپنا غصہ نکالتے ہوئے انہیں سزا دینے کی دھمکی بھی دی۔ ترک صدر کے نزدیک مقامی کرنسی لیرہ کی قدر میں حالیہ گراوٹ کے پیچھے بینکاروں کا ہاتھ ہے۔ جمعے کے روز ڈالر کے مقابلے میں لیرہ کی قدر میں چند گھنٹوں کے دوران 5% تک کی کمی آ گئی۔ ایردوآن نے عوامی اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ “ہم جانتے ہیں آپ کون لوگ ہیں! آپ لوگوں کو انتخابات کے بعد اس کی قیمت چکانا ہو گی!.
ایسا نظر آ رہا ہے کہ 2009 کے بعد پہلی مرتبہ کساد کا شکار ہونے والی ملکی معیشت ممکنہ طور پر وہ واحد عامل ہو گا جو جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی کی کمر توڑ دے گا۔ اس سے قبل 2003 میں وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد سے ایردوآن معیشت کے حوالے سے اپنے تمام تر وعدے پورے کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ سال 2017 میں ترکی میں فی کس جی ڈی پی کا اندازہ 10597 امریکی ڈالر لگایا گیا تھا۔ اگلے سال یعنی 2018 میں یہ کم ہو کر 9632 ڈالر تک آ گیا۔ نومبر 2018 میں بے روزگاری کا تناسب 12.3% تھا۔
ترکی میں افراط زر نے صارفین کی جیبوں کو شدید متاثر کیا۔ امریکا کے ساتھ سفارتی بحران کی تجدید کے اندیشے کے سبب ترک لیرہ کی قدر میں مزید کمی کے خوف سے عام آدمی اور کاروباری افراد نے امریکی ڈالر کا رخ کیا۔ اسی بنیاد پر رواں ماہ 11 سے 15 مارچ کے درمیان ترکی میں چار ارب ڈالر خریدے گئے جس کی مثال 2012 کے بعد نہیں ملتی۔ ترکی کے مرکزی بینک میں غیر ملکی زر مبادلہ کے حجم میں اچانک سے 6.3 ارب ڈالر کی کمی نے مالیاتی تجزیہ کاروں میں یہ شکوک پیدا کر دیے کہ ادارے نے اپنے زرمبادلہ میں سے ڈالروں کو فروخت کیا ہے تا کہ ترک لیرہ کو سپورٹ کیا جا سکے۔