کراچی (جیوڈیسک)کراچی محمد رفیق مانگٹ امریکی اخبارنیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ گزشتہ بارہ سال سے امریکا کا فوکس افغانستان نہیں، پاکستان رہا، امریکا کی سلامتی پر مبنی پالیسی نے پاکستان میں اقتدار،سیاست اور عسکریت پسندی کی تشکیل کی ہے، ڈرون حملوں میں کمی پاکستان اور مغرب کے تعلقات میں تناو کو کم کرے گی۔امریکی پالیسی کی تبدیلی نواز شریف کے لئے اچھی خبر ہے انہوں نے قوم سے وعدہ کیا ہے کہ امریکا پر پاکستان کا انحصار کم کیا جائے گا۔
اوباما کی پالیسی ساز تقریر نواز شریف کے لئے اچھی خبر لے کر آئی۔ افغان جنگ سے انخلا کی تیاری،ڈرون حملوں میں کمی، عسکریت پسندوں کے خلاف امریکی پسپائی پاکستان کے کئی رہنماوں کے لئے خوشی کا باعث ہے۔امریکا اب کسی رکاوٹ کے بغیر اس خطے سے نکلنا چاہتا ہے۔کئی حلقوں کو خدشہ ہے کہ امریکی پالیسی کی حالیہ تبدیلی 90کی دہائی کاری پلے نہ ہو جب سوویت انخلا کے بعد امریکا افغانستان کو عسکریت پسندو ں کے رحم وکرم پر چھوڑ گیا اور پاکستان کے جوہری پروگرام پر پابندیاں عائد کردیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ امریکا کی طرف سے اربوں ڈالر کی فوجی امدادسے ڈرون حملوں تک امریکا نے عسکریت پسندی کے خلاف افغانستان کی بجائے پاکستان پر نظر رکھی۔امریکی صدر اوباما کی پالیسی سازتقریر نے واضح کردیا کہ تما م حکمت عملی تبدیل ہونے جارہی ہے۔ڈرون حملوں میں بتدریج کمی اورافغان جنگ کو سمیٹا جا رہا ہے۔القاعدہ کے خلاف جنگ پسپائی کا شکار ہو رہی ہے۔پاکستانی رہنما طویل عرصے سے امریکا کے اس خطے سے نکلنے کا مطالبہ کرتے آرہے تھے۔
ان کی خواہش پوری ہونے جارہی ہے،لیکن پاک امریکا تعلقات میں زیادہ دوری پاکستان کی مالی امداد اور سیاسی اہمیت میں کمی کردے گی کیونکہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں اہم پارٹنر ہے اور اسے اندرونی عدم استحکام کا خطرہ ہوسکتا ہے۔ ڈرون حملوں میں کمی پاکستان اور مغرب کے تعلقات کے تناو کو کم کرنے میں مدد دے گی۔ گزشتہ دہائی میں 360ڈرون حملوں کے باوجود پاک افغان سرحد اور قبائلی علاقہ عسکریت پسندوں کی پناہ گاہ اور مرکزی حکومت کے کنٹرول سے باہر رہے گا۔امریکی فوج 2014میں افغانستان سے انخلا کر رہی ہے۔اخبار کے مطابق ڈرون مہم کو پہلے ہی پاکستان میں کم کردیا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر افغانستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی تیز ہوگی تو عسکریت پسند پاکستان کی قبائلی پٹی کی طرف رخ کریں گے جہاں طالبان مزید مضبوط ہو جائیں گے۔ مشرف کے دور سے امریکی ملٹری امداد سے پاک فوج نے17ارب ڈالر وصول کیے۔پاک امریکا تعلقات میں تناو کو کئی پاکستانی رہنماوں نے بہتر خیال کیا۔ان کا کہنا ہے کہ خطے میں حد سے زیادہ امریکی موجودگی ہی ہزاروں پاکستانیوں کے قتل کی وجہ ہے ،افغانستان میں امریکی فوج اور پاکستان پر ڈرون حملوں کا الزام لگاتے ہوئے حکام کہتے ہیں کہ امریکی موجودگی عسکریت پسند وں کے لئے ایک جواز کا کام کررہی ہے۔
اخبار نے پاکستان کی سابقہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر کے حوالے سے لکھا کہ خطے میں امریکی شمولیت میں کمی ہی بہتر صورت حال کی طرف لے کر جائے گی۔ڈرون حملے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شکست میں مدد دے رہے ہیں۔امریکی حکام سمجھتے ہیں کہ شہروں اور قبائلی علاقوں کے عسکریت پسندوں کے متعلق پاکستا ن کی دہری پالیسی ہے ۔اخبار کے مطابق پاکستانی حکام اس پالیسی کو خفیہ طور پر تسلیم بھی کرتے ہیں۔خطے میں امریکی موجودگی پاکستان کے سیاسی افق پر ایک بڑا سیاہ دھبہ ہے۔
پاکستان نے اپنے کئی داخلی مسائل کے لئے امریکا کو قربانی کا بکرا بنایا ہوا ہے۔امریکا میں ڈرون حملوں کے بارے حالیہ تشویش کی وجہ سے اس سال پاکستان میں صرف 12 حملے کیے گئے جب کہ 2010میں 130حملے کیے۔اب اوباما نے اعلان کیا ہے کہ صرف ان اہداف پر ڈرون حملے کیے جائیں گے جن سے امریکا کی سلامتی کو خطرہ ہوگا۔یہ تبدیلی نواز شریف کے لئے اچھی خبر ہے انہوں نے قوم سے وعدہ کیا ہے کہ امریکا پر پاکستان کا انحصار کم کیا جائے گا۔اب امریکا افغانستان سے کسی بھی رکاوٹ کے بغیرانخلا چاہتا ہے ۔
اسی کے ساتھ پاکستان مغربی سرحد پر اپنا اثر رسوخ قائم کرلے گا۔ابھی بھی کچھ شبہات ہیں کہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کے جہادی گروپوں کے ہاتھ لگنے کے خدشے کے پیش نظر امریکا پاکستانی معاملات میں مداخلت کرتا رہے گا۔ ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان کوامریکی مالی امداد اور دیگر حمایت کی ضرورت ہے جب کہ امریکا القاعدہ کے اعلی کمانڈروں کی تلاش میں ہے لہذا2104 کے بعد بھی دونوں ممالک کا ایک دوسرے پرباہمی انحصار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔