٠٣اگست وہ دن جو پاکستان میں ایک سیاہ تاریخ رقم کر گیا،جو ہمیشہ سیاست کے ماتھے پر ایک بد نماداغ کی طرح عیاں رہے گا۔ حکومت کوئی بھی ہو وہ غلطیاں کرتی رہی ہے لیکن اس طرح کی جارحیت کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں جہاں حکومت کاردِعمل شدید بھی ہواور بچگانہ بھی، بچگانہ اس لیے کہ دھرنوں کی یہ روایت کوئی پرانی نہیں ،یہ وہی ریڈزون ہے جہاں چوہدری نثار نے بھی دھرنا دیا تھا،وزیرِاعظم صاحب بھی ریلیوں کے ساتھ اسلام آباد پہنحے تھے تو پھر آج کس منہ سے انھوں نے یہ ردِعمل ظاہر کیا؟ جب سپریم کورٹ نے پرُامن احتجاج کی اجازت دے رکھی تھی تو کس legeslative framework کے تحت حکومت نے یہ جارحیت دکھائی؟ وہ آگے بڑھ رہے تھے۔
تو بڑھنے دیتے ، کو ئی قیا مت نہیں آنی تھی البتہ وہ کالعدم ہو جاتے، حکومت کی پوزییشن مضبوط ہو جاتی ، مگر افسوس حکومت کے شدید ردِعمل نے ریڈ زون کو میدانِ جنگ بنا دیا ، لوگوں پر شیلینگ کی ، ربڑ کی گولیاں چلائیں، نتیجہ، بے شمار لوگ زخمی ہوئے ، ایک کی موت ہوئی ، بچے ‘بڑھے’خواتین گو کوئی بھی محفوظ نہ رہااس پہ مزیدیہ کہ حکومت یہاں رُکی نہیں ٤ہزار مسلح پولیس اہلکار مزید طلب کر لیے گئے؟ کیوں؟شرکاء کو گرفتار کیا گیا، کس قانون کے تحت؟ عوام حکومت سے ا یسے غیر آئینی اقدام کی ہر گز توقع نہیں رکھتی۔ یہ سیاسی جنگ ہے تو ٹھیک ہے حکومت بھی آئینی طورپر اپنے موقف پر قائم رہے مگر پاکستان کو اپنی جاگیر نہ سمجھے وزیرِاعظم جو جمہوریت کا ڈھول بجاتے پھر رہے تھے۔
کہاں گیاوہ؟ ناریندر مودھی سے ملاقات کے وقت ماں کے ذکر پہ ان کی آنکھیں بھیگ گئیں تھیں اب اس ماں کا کیاجس کا لختِ جگر آپ کی جارحیت کھا گئی؟ افسوسس کے آپ حکومت بچارہے ہیں ‘جمہوریت نہیں۔ بقول آپ کے اگر آپ سچے ہیں ‘ آپ کی پوزیشن اتنی سٹرونگ ہے تو پھر ڈر کس چیز کا؟ پھر میڈٹرم الیکشن میں ایسی کوئی واضح رُوکاٹ نہیں ‘ کم از کم اس سے تو امن وامان قائم ہو سکتا تھا’ جمہوریت جڑ پکڑ سکتی تھی جس کا آپ پرچار کرتے ہیں ‘ مگر یہ بھی نہیں۔ کیوں؟ ہا تھ جب صاف ہوں تو شو کرنے میں کیا مضائقہ ہے؟ ایسے میں وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آپ جانتے ہیں کہ یہ چھینی ہوئی روٹی ہے اور اس کا احتساب مہنگا پڑے گا۔
چند دن پہلے حمزہ شہباز کا بڑا پاورفل بیان تھا کہ “کوئی مائی کا لعل وزیرِاعظم سے استعفی نہیں لے سکتا” سر اگر ایسا ہے توعوام بھی کسی مائی کے لعل کو یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ احتساب کے لیے انصاف کے کٹہرے میں کھڑاہونے سے انکار کر دے ، جس شریعت پر یہ ملک قائم کیا گیا ہے اس میں ایسی بے شمار مثالیں رقم ہیں جہاں خلیفہ کٹہرے میں آئے، تو پھر آپ کیو ں نہیں؟
جولوگ باہر نکلے ہیں ان کے جو بھی مطالبات ہیں وہ انصاف سے relatedہیں چاہے وہ مینڈیٹ کا مسئلہ ہو یا حکومت کا۔ آپ ہی کو لے لیں تو وہ کو ن سا ٹیلینٹ ہے جو آپ اتنے پروٹوکول سے پور ے لاہور میں گشت کرتے پھرتے ہیں ۔ وہ کونسا میرٹ ہے جس کی بنیاد پر آپ آگے آئے ہیں ؟ اور وہ برفانی شیر جو آج بھی ایک controversial issue ہے اس کے اخراجات کہا ں سے پور ے ہوتے تھے؟ اس کے ایک دن کے کھانے پر جتنا خرچا آتا ہے اس سے کسی غریب کے گھر کا دسترخوان پورا مہینہ نعمتوں سے سجا رہ سکتاہے۔ بقول آپ کے وہ حلال کمائی سے لیا ہے۔ بڑی مزائقہ خیز بات ہوئی ! کیونکہ آپ کے دادا جی اقتدار میں آنے سے پہلے سائیکل سوار تھے پھر اتنا حلال کہاں سے جمع کر گئے ؟ اگر سب حلال کا ہے تو آپ نے آج تک اپنے assets ڈیکلئیر کیو ں نہیں کیے؟ اور یہاں بھی آپ کا مو قف مائی کے لعل والا ہی ہو گا ایسی شریفانہ غنڈا گردی کی بھی مثال نہیں۔
اچھی خبر یہ ہے کہ کورٹ نے مریم نواز جو اربوں کے منصوبے کی چییر پرسن ہیں کو طلب کر لیا ہے ۔ بنیاد یہ ہے کہ وہ کو نسا میر ٹ ہے جس کے تحت وہ اس عہدے پر فائز ہیں۔اور ہمارا نوجوان میرٹ پر ہوتے ہوئے بھی نوکر ی کے لیے ٹھوکریں کھا رہا ہے۔ احتساب ہو نا چاہئے اور انصاف بھی ملنا چاہیے۔ اندھا بانتے ریوڑیاں مڑمڑ اپنوں کو۔ وزیرِاعظم نے یہاں بھی غلط کیا۔
کتنے ایسے عہدے ہیں جہاں ان کہ اپنے قریبی لو گ اور رشتے دار بیٹھے ہیں وہ اسحاق ڈار صاحب ہوں ، بلال یاسین ‘ حاجی طاہر علی ‘ سہیل ضیاء بٹ اور ایسے کئی اور نام مگر PM یہاں بھی انصاف نہ کر سکے۔ سانحہ ماڈل ٹائون پر وزیرِاعظم کا موقف تھا کہ مجھے تو علم ہی نہیں اس بارے میں ۔ واہ! خاندان کے اہم لوگ پولیس میں بھرتی ہوتے ہوئے بھی آپ کو کچھ خبر نہیں ۔ وہ بیرئیر جو منہاج القران کے سامنے چار برسو ںسے پڑے تھے وہ کسی کو اتنے عرصے سے تکلیف نہیں دے رہے تھے پھر وہاں اس قتل و غارت کی کیا ضرورت تھی؟ 22لوگوں کو شہید کر دیا لیکن کو ئی انصافprovideکرنے کو تیار نہیں۔ حکومت نے غلط کیا۔
Nawaz Sharif
عمران خان اکیشن کے بعد صر ف چار حلقے کھلوانے کی بات کر رہے تھے مگر حکومت ان کے احتجاج کو for grantedلیتی رہی اگر حکومت کا رویہ وہاں مثبت ہو تا تو وہ حلقے کھلوادیتے ‘ یہ نہیں ممکن تھا تو وہا ں دوبارہ الیکشن کروادیتے ‘ مسئلہ حل ہو جاتا اور بات لانگ مارچ تک نہ پہنچتی آج معامعلے کی نوعیت کچھ اور ہوتی۔ مگر حکومت نے وہا ں بھی غلطی کی۔ پاک فوج کو حکومت نے facilitator بننے کے لیے بولا اور وزیرِاعظم نے کھلم کھلا پارلیمنٹ میں کھڑے اس بات کو رد کر کے پاک آرمی کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ دے مارا۔ اگر ریکویسٹ حکومت کی طر ف سے کی گئی تھی تو حکومت اسے اون کرتی مگر نہیں کیا۔
ایک اور غلطی!! وزیرِداخلہ چوہدری نثار صاحب بھی بڑے دلچسپ آدمی ہیں یہ اس ماں جیسے ہیںجس کا بچہ غلطی کرآئے توسب پتہ ہونے کے باوجود بھی کوئی لاکھ کہے مگر پاوئں پر پانی نا پڑنے دے ۔ وزیرِاعظم کے غلط بیان کے بعد انھوں نے پریس کانفرنس بُلا کر یہی رول نبھایااور بیان کو بلاوجہ کورکرنے کی ناکام کوشس کی ‘مگر بات نہ بن سکی ۔اس کی بجائے اگر یہ معذرت کر لیتے تو وہ فوج اور سیاسی لیڈرشپ جو ان سے خفا ہو گئی تھی ان سے تعلقات دوبارہ بحال ہو جاتے معاملہ تقریباحل ہو جاتا ۔ مگر ایسا نہیں کیا ۔ پھر غلطی کی۔
29اکتوبر 2011کو جب وزیر ِ اعلی نے صدر زرداری کے خلاف ناصر باغ سے بھاٹی چوک تک ریلی نکالی تھی تو ان کا بیان تھا ” جنگ شروع کر دی ‘زرداری ٹولے کو نیست و نابود کرنے تک جاری رکھیں گے ‘ لاہور آخری مارکے کے لیے تیار ہے ۔ زرداری استعفی دیں ورنہ کہیں پناہ نہیں ملے گی ” اور 12 اگست 2014 کو ان کا بیا ن تھا ” منتخب وزیرِاعظم سے استعفی کا مطالبہ غیر آئینی ‘ عمران کا رویہ جمہوری نہیں ہے ” جب کہ استعفی کا مطالبہ اس صورت میں آئینی ہے جب پو لیٹیکل پارٹیز الیکشن کے نتائج سے غیر مطمئن ہیں ۔ حکومت نے معاملے کو وقت پر سُلجھانے کی بجائے اسے طول پکڑنے دیا ۔ پھر غلطی کی۔
اور اب ریڈزون میں undue influence استعمال کر کے معاملے کو قا بو کرنے کی کو شش کر کے اپنے پائوں پر ایک اور ضرب لگا دی ۔کیونکہ اب یہ لو گ بلکل پیچھے پٹنے والے نہیں ‘ مذاکرات کبھی بھی سر پر پستول رکھ کر نہیں ہوتے اور حکومت نے اس بات کی بھی پروا نہیں کی ۔ خون خرابے میں پہل کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ حکومت یہاں بھی غلطی کر گئی۔ ڈاکڑز کی ہدایت ہے کہ مظاہرین دن میں چار بار نہائیں ‘ ہر آدھے گھنٹے کہ بعد منہ دھوئیں جبکہ حکومتی ملازمین جن کو عمران خان صاحب گلو بٹ بلاتے ہیں کھانے پینے کی اشیاء کی رسائی ان تک مشکل بنا رہے ہیں جو کہ سراسر جبریت ہے اور غلط ہے۔
حکومت کے ایک قد م نے انھیں منزل سے کوسو ں دور کر دیا ‘ وہ مذاکراتی دروازے جو وا ہوئے تھے ان پر پھر سے تالا لگ گیا حالات بہتری کی بجائے اور کشیدہ ہو گئے ‘ ملکی حالات سُدھرنے کی بجائے مزید تصادم کا شکار ہو گئے۔۔
اگر وہ دھاندلی کا claim کر رہے ہیں تو یہ ان کا جمہوری حق ہے ‘ جوحکومت کو انھیں مہیا کر نا چاہیے۔ لوگوں کا سمندر ہو یا ایک فرد حکومت تابع ہے کہ وہ claimکو کلئیر کرے۔ بجائے اس کہ کے قتل ِعام کا بازار گر م کیا جائے۔فیصلہ ہونا چاہیے، ان کا claim درست ہے تو یہ مستعفی ہوں اور اگر غلط ہے تو مخالفین کے لیے اس سے بڑی شکست اور کوئی نہیں ہو گی۔
وزیرِاعظم صرف اپنی کرسی کا تحفظ نہ کریں بلکہ جمہوریت کو یقینی بناننے کے لیے جو ضروری ہے اس پر بھی غور کر یں ۔ کیونکہ اب حکومت کے پاس مزید غلطیوں کی گنجائش نہیں دعا ہے کہ اللٰہ ہمارے ملک کو سلامت رکھے اور اسے امن کا گہوارہ بنائے ۔ آمین!