ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایرانی صدر حسن روحانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب میں تنبیہ کی کہ ایک چھوٹی سی غلطی سے بھی خلیج فارس کے علاقے میں بہت بڑی آگ بھڑک اٹھے گی۔ انہوں نے امریکا پر ’بے رحمانہ اقتصادی دہشت گردی‘ کا الزام بھی لگایا۔
امریکی شہر نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں بدھ پچیس ستمبر کے روز ایرانی صدر نے یہ بات بھی زور دے کر کہی کہ خلیج کے علاقے میں پائے جانے والے مسائل خطے کے ممالک کو خود حل کرنا چاہییں اور انہیں اس کے لیے غیر ملکی مدد طلب نہیں کرنا چاہیے۔
تہران اور واشنگٹن کے مابین گزشتہ کافی عرصے سے بہت شدید ہو چکی کشیدگی کے تناظر میں ایرانی صدر نے اس بات کو بھی خارج از امکان قرار دیا کہ اپنے خلاف اقصادی پابندیوں کے مؤثر ہوتے ہوئے تہران واشنگٹن کے ساتھ کسی بھی قسم کی کوئی بات چیت کرے گا۔
ایرانی رہنما نے مطالبہ کیا کہ تہران کے جوہری پروگرام سے متعلق معاہدے کے بارے میں کسی بھی بامعنی مکالمت سے پہلے امریکا کو ایران کے خلاف عائد کردہ تمام پابندیاں اٹھانا ہوں گی۔ انہوں نے کہا، ”ان پابندیوں کے ہوتے ہوئے (امریکا کے ساتھ) کسی بھی طرح کی بات چیت کی تجویز پر میں اس بات کا اعلان کرتا ہوں کہ ہمارا جواب نفی میں ہے۔‘‘
حسن روحانی نے ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین 2015ء میں طے پانے والے جوہری معاہدے کے بارے میں کہا کہ اگر یورپی طاقتیں بھی اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہیں، تو ایران بھی اس معاہدے سے اپنے اخراج کا حتمی فیصلہ کر سکتا ہے۔ ایرانی صدر نے کہا، ”ہم اس جوہری معاہدے پر عمل درآمد کا تہیہ کیے ہوئے ہیں، لیکن ہمارے صبر کی بھی ایک حد ہے۔‘‘
ایرانی صدر نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کئی امور پر اظہار خیال کیا۔ ان میں خلیج کے علاقے میں پائی جانے والی کشیدگی، آبنائے ہرمز کے راستے تیل کی تجارتی مال برداری اور یمن کی خانہ جنگی جیسے کئی موضوعات شامل تھے۔
حسن روحانی نے کہا کہ خیلج کے خطے میں کشیدگی بہت زیادہ ہے اور کئی تنازعات ہوا پکڑ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ”یہ خطہ ایک بڑے انہدام کے دہانے پر کھڑا ہے۔‘‘ صدر روحانی کے بقول اگر امریکا خطے سے اپنی فوجیں واپس بلا لیتا ہے، تو اس سے علاقائی سلامتی کی صورت حال بہتر بنانے میں واضح مدد ملے گی۔ انہوں نے تنبیہ کرتے ہوئے کہا، ”ایک بھی غلطی خلیج کے خطے میں ایک بڑی آگ کے لیے ایندھن بن جائے گی۔‘‘
حسن روحانی نے سعودی عرب میں تیل کی انتہائی اہم تنصیبات پر ہونے والے حالیہ ڈرون اور میزائل حملوں کے پس منظر میں ریاض حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ یمن میں عسکری ‘چڑھائی‘ ختم کرے۔ ان کی مراد سعودی عرب میں وہ حملے تھے، جن کے بارے میں سعودی عرب اور امریکا کا الزام یہ ہے کہ ان حملوں کے پیچھے ایران تھا۔ ایران اپنے خلاف ان الزامات کی پرزور تردید کرتا ہے۔
ایرانی صدر کے الفاظ میں، ”غیر ملکیوں کو دعوت دینے کے برعکس، یمن میں جارحیت کے خاتمے کے ساتھ سعودی عرب کی سلامتی کی ضمانت دی جا سکے گی۔ امریکی ہتھیاروں اور مداخلت سے تو سلامتی کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ سلامتی کوئی ایسی شے نہیں جو خریدی یا غیر ملکی حکومتوں کی طرف سے مہیا کی جا سکتی ہو۔‘‘
اسی سلسلے میں صدر روحانی نے جنرل اسمبلی کو بتایا، ”امریکا افغانستان، عراق اور شام میں تنازعات کو حل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ امریکا میں یہ اہلیت ہی نہیں ہے کہ وہ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کوئی کردار ادا کر سکے اور اس وقت اس خطے میں امن بحال کرا سکے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کو لازمی طور پر اب ایک ایسا ‘امید کا اتحاد‘ قائم کرنا چاہیے، جو خلیجی خطے کے ممالک کے لیے امن، استحکام اور فلاح و بہبود کے لیے کام کر سکے۔‘‘
ایرانی صدر نے اپنے خطاب میں امریکا پر یہ الزام بھی لگایا کہ وہ ایران کے خلاف ایک ‘بے رحمانہ اقتصادی دہشت گردی‘ کا مرتکب ہو رہا ہے۔ انہوں نے واشنگٹن کی تہران کے خلاف پابندیوں کو ‘تاریخ کی سخت ترین پابندیاں‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ واشنگٹن اپنی وہ تمام تر کوششیں کر چکا ہے، جن کے ذریعے وہ ‘ایران کو عالمی معیشت میں شرکت کے جملہ فوائد سے محروم کرنا‘ چاہتا ہے۔
صدر حسن روحانی کے مطابق امریکا کی پیدا کردہ رکاوٹوں اور ان پابندیوں کے باوجود ایرانی معیشت نے اپنے ہاں شرح ترقی کے حوالے سے مثالی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔