جنسی درندگی کے بڑھتے ہوئے واقعات انسانی معاشرے کیلئے زہرقاتل ہیں ۔موجودہ انسانی معاشرے میں عورتیں،بچیاں، بچے جس قدر غیر محفوظ ہیں اسے دیکھ کر تو شاید جانور بھی شرما جائیں۔جنسی درندگی یعنی زنا کا عام مفہوم جس سے ہر شخص واقف ہے وہ یہ ہے کہ ایسے مردو عورت جن کے درمیان جائز رشتہ( نکاح)قائم نہ ہویعنی میاں بیوی نہ ہوں باہم مباشرت (زنا) کا ارتکاب کریں۔زناایسا فعل بد ہے جسے زمانہ قدیم سے انسانی معاشرے کیلئے زہرقاتل سمجھا جاتاہے۔ زیادہ ترمذاہب اورمعاشروں نے زناکوقابل سزا جرم قراردے رکھاہے۔قدیم زمانے سے آج تک تمام انسانی معاشرے متفق ہیںکہ نوع انسانی کا بقاء اور انسانی تمدن کا قیام دونوں اس بات پر منحصر ہیں کہ عورت اور مردکو محض جسمانی لطف و لذت کے لیے ملنے اور بھر الگ ہو جانے میں آزاد نہیں ہونا چاہیے۔
اگر مرد اور عورت گھر اور خاندان کی تخلیق سے قطع نظر کر کے محض لطف ولذت کے لیے آزادانہ ملنے لگیں توانسانی معاشرے اور جنگلی جانوروں کے طرززندگی میں کیا فرق رہ جائے گا؟ایسی صورت میںاجتماعی زندگی کی جڑ کٹ جاے گی اور وہ بنیاد ہی باقی نہ رہے گی جس پر تہذیب و تمدن کی یہ عمارت اٹھی ہے،انہی وجوہات کی بناپر انسان اس زنا کو ہرزمانے میں سخت عیب،ایک بڑی بداخلاقی،مذہبی اصطلاح میں ایک شدید گناہ اورقانوناًجرم سمجھتا ہے۔انہی وجوہات کی بنا انسانی معاشرے خاص طور پرمسلم ریاستوں نے ہر زمانے میں زنا کے سدباب کیلئے نکاح کی اہمیت کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ زناکے مرتکب مردوعورت کیلئے سزائیں تجویزکی ہیں۔موجودہ دور میں زنا کا عام ہونا خصوصاً اسلامی ممالک میں پاکستان جیسا ملک جو بنا ہی اسلام کے نعرے پر تھا وہ دنیا میں زنا کے واقعات کے اعدادوشمارکے لحاظ سے دس ممالک کی لسٹ میں شامل ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے صوبہ پنجاب میں جو گورنس کے ا عتبار سے باقی صوبوں سے معتبر سمجھا جاتا ہے وہاں ایک سال کے دوران 14,850،عورتیں ،بچے اور بچیاں اغوا ہوے اور ان میں سے دس ہزار کیسس میں زنا رجیسا سنگین جرم سامنے آیا انہی عداد او شمار کے پندرہ فیصد کیسس میں ظلم کا شکار ہونے والوں کو قتل کر دیا گیا ،لیکن چند کیس جن کا شور غل سوشل میڈیا یاالیکٹرونک میں ہوا ، مثلاء زینب،کیس،یاحالیہ دنوں میں فرانسیسی شہریت رکھنے والی خاتون کیساتھ موٹروے پر ہوا،ہمیشہ کی طرح سانحہ موٹروے کے بعد ایکشن لینے کے لیے قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آے،کچھ سیاستدان موجودہ اور ماضی میں زبانی جمع خرچ کر کے پوائنٹ سکوررنگ کے لیے میڈیا میں آکر تقریریں کرتے رہے اورہمیشہ کی طرح ہی عملاً نتیجہ صفر ہی رہا۔بہت سارے ایسے لوگ جن کی سوشل یاالیکٹرونکس میڈیا تک رسائی نہیں اُن کی عزت لٹ جانے پر توپوائنٹ سکوررنگ تک نہیں ہوتی اورشاید حقیقت انسانی معاشرے کامنہ کالاکرنے کیلئے کافی ہوکہ زیادہ ترمظلوم تھانہ اورعدالت جانے سے ڈرتے ہیں۔اس سب کی وجہ کیا ہے ؟ کیاصرف زناپر حدود اللہ کے قانون کا نفاذ نہ کرنا ہے؟
کیا پاکستانی قانون میں زنا کی سزا نہیں ہے؟اس کے بڑھنے کی وجوہات کئی عوامل سے جڑی ہوئی ہیں ،پاکستان میں حدود قوانین موجودہیں جو 1979میں جنرل ضیا ء کے دور میں بناے گئے اس میں قرآن پاک کی سورةالنور کی آیت نمبر دو کے مطابق زنا کی سزا شادی شدہ کے لیے سرے عام سنگسار کرنا اور غیرشادی شدہ کے لیے سو کوڑے تھے اورزنا ثابت کرنے کے لیے چار گواہ لانے ضروری تھے جوکہ مختلف اختلافات اور تنقید کی زد میں آ کر 2006میںwomen protection act بل کا نفاذکر کے ختم کر دیا گیا۔ اس دورانیے تک زنا کے واقعات میں کنٹرول تھا لیکن women protection act بظاہر عورت کے حق میں بنایا گیا لیکن حدود اللہ کے برعکس اس میں زنا کی سزا پر نرمی دی گئی اور زنا کو خود ایک گناہ سمجھنے کی بجاے عورت کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا کے اگر زنا عورت کی مرضی کے خلاف کیا گیا تو اس پر سزا ہوگی اور اس کی سزا تبدیل کر کے عمر قید یا سزاے موت رکھ دی گئی ،جس سے زنا کو کسی حد تک تقویت ملی ،لیکن بات صرف یہاں تک محدود نہیں ہے اور بہت سے عوامل اس میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں جن میں غربت،مہنگائی،نکاح کے راستے میں رکاوٹ پیداکرتے فضول رسم ورواج،نمائش،فحش فلمیں،ڈرامے اوردیگرپروگرام،قانون کی کمزرویاں اوراہل اختیارکی بداعمالیاں سرفہرست ہیںان کے علاوہ بھی بہت سارے عوامل زنا کو سپورٹ کر رہے ہیں موجودہ حکومت بھی اس بات کو سنجیدگی نہیں لے رہی تھی۔
سانحہ موٹرے کیے فوری بعد حکومت کوخواب غفلت سے جگاکرسستی اورغیرسنجیدہ رویہ ترک کرکے مظلوم کی داد رسی اورانصاف کے راستے میں حائل رکاوٹیں دورکرنے کی غرض سے راناانتظارایڈووکیٹ ممبرپنجاب بار کی بیسٹ لاء کمپنی کی ایسوسی ایشن میں سے رانا کاشف اور علی اکبر ملک ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کو خط لکھا گیا خط میں موجودہ ایمرجنسی ہیلپ لائنز کے غیر معیاری، غیر موثر اور سست ہونے کی شکایت اور ایسی ہیلپ لائن جومتعلقہ تمام اداروں سے لنک ہواس کے قیام کی بھی تجویز دی گئی ۔برخلاف توقع خط پر وزیراعظم آفس نے فوری ایکشن لیا اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے ون ونڈو آپریشن کے قیام کا اعلان کر دیا جس کے مطابق تمام تر شکایات کا ازالہ متعلقہ 33 وفاقی کمپلینٹ سیل کے ذریعے جلد سے جلد کیے جانے کے احکامات جاری کردئیے گئے اب دیکھنایہ ہے کہ ان احکامات پرعمل درآمدکب اورکس حدتک ہوتا ہے۔