تحریر : طارق حسین بٹ شان
٢٥ جولائی ٢٠١٨ کے تایخی دن پر اپنی مرضی کے نتائج حاصل کرنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ اپنے کارڈز انتہائی مہارت سے کھیلنے کے ساتھ ساتھ ایک تازہ دم جماعت کو اقتدار سپرد کرنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔الیکٹیبلز کے نام پر جو نئی بساط بچھا ئی گئی ہے وہ اپنا رنگ دکھا رہی ہے اور اس تاثر کو ہوا دے رہی کہ اگلی حکومت پی ٹی آئی تشکیل دے گی۔اس مفروضہ کو عمل جامہ پہنانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ زیرِ عتاب جماعت کو ہر حال میں شکست دینے کیلئے نہ صرف پر عزم ہے بلکہ اسے عبرت کا نشان بنانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے بالکل اسی طرح جس طرح عالمی سازش کے تحت ذولفقار علی بھٹو کو نشانِ عبرت بنایا گیا تھا۔یہ الگ بات کہ وہ نشانِ عبرت بننے کی بجائے نشانِ فخر بن گیا ۔ ایک زمانہ تھا زیرِ عتاب جماعت کا قائد ان کی آنکھ کا تارا ہوا کرتا تھا ۔اس وقت اس جماعت کی قیادت انتہائی پارسا اور دیانت دار تھی کیونکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچا کرتی تھی۔
ناچنا بھی بہت بڑا فن ہے جو ہر کس و ناکس کو عطا نہیں ہوتا۔یہ الگ بات کہ کوئی سرِ دار ناچتا ہے،کوئی سرِ بازار ناچتا ہے اور کوئی سرِ عام ناچتاہے۔کوئی عشق کی کوک بن کر ناچتا ہے اور کوئی ضمیر کا سودا کر کے ناچتا ہے۔شائد اطاعت کی اسی رمق سے متاثر ہو کر اسٹیبلشمنٹ نے اپنی منظورِ نظر جماعت کو کبھی قومی خزانہ سے بھاری رقوم تقسیم کیں اور کبھی انتظامیہ کی کمک بہم پہنچائی تا کہ پی پی پی کا راستہ روکا جائے۔اس وقت اصل ہدف پی پی پی کو زیرِ پا رکھنا تھا لہذا ایسا سرِ عام کیا گیا۔اس کارِ خیر کو انجام دینے والے قائد کو لوگ میاں محمد نواز شریف کے نام سے جانتے ہیں ۔پی پی پی جیسی وفاقی جماعت کا کانٹا نکل گیا تو پھر اسٹیبلشمنٹ اپنے ہی پالے ہوئے شیر کو گیڈر بنانے پر تل گئی ۔شیر کو بھی شائد دو تہائی اکثریت سے یہ زعم لا حق ہو گیا تھا کہ وہ اصلی شیر ہے حالانکہ وہ اصلی نہیں بلکہ سدھارا ہو شیر تھا یعنی دوسروں کے اشاروں پر ناچنے والا شیر ۔در اصل اسٹیبلشمنٹ بھی میاں محمد نواز شریف کی مقبولیت سے خا ئف تھی اور اسے اپنے لئے خطرہ تصور کرتی تھی۔
پی پی پی کی غیر مقبولیت نے اسٹیبلشمنٹ کو اپنے پالے ہوئے شیر سے دامن چھڑانے کا موقعہ بہم پہنچا دیا ۔جب ایک ٹویٹ کو واپس لینے کیلئے عسکری قیادت کو وزیرِ اعظم سے معافی مانگنی پڑجاے تو پھر ایک نئے کھلاڑی کاسٹیج پر نمو دار ہو نا یقینی تھا اورعمران خان سے بہتر کوئی کھلاڑی ٰ موجود نہیں تھا لہذا انہی کا انتخاب ہو گیا۔مقدمات کی بھرمار میں چشمِ فلک نے نیب عدالت میں سو پیشیوں کا عالمی ریکارڈ قائم ہوتے ہوئے دیکھا جو ہنوز ختم نہیں ہوا۔لیکن اس کے باوجود پھر بھی بات بنتی ہوئی نظر نہیں آ رہی کیونکہ عوام انصاف کو انتقام سمجھ کر میاں محمد نواز شریف کو مظلوم سمجھ رہے ہیں ۔عدلیہ کی مہم جوئی اور نیب کی پھرتیاں میاں محمد نواز شریف کے خلاف ہمدردی کی لہر پیدا کر کے انھیں مظلوم بنا رہی ہیں ۔ دو سابق وزرائے اعظم کے مقدمات کی تو مہینوں شنوائی نہیں ہوتی لیکن یہاں پر چھٹی کے دن اور رات کو بھی شنوائی کا حکم صادر ہوچکا ہے ۔ آخر کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
سوال یہ نہیں کہ میاں محمد نواز شریف کوئی غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل لیڈر ہیں بلکہ اصل وجہ یہ ہے کہ جمہوریت کی جنگ کو انھوں نے جس طرح مقصدِ حیات بنا لیا ہے وہ انھیں نئی مقبولیت بخش رہا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کو یوں سرِ عام للکارنے کی پاکستان میں کوئی روائت نہیں ہے۔یہ پنجا ب کے کسی لیڈر سے ہی متوقع تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی اندھی قوت کو نہ صرف للکارے بلکہ ان کے سامنے کوہِ گراں بن کر کھڑا ہو جائے اور میاں محمد نواز شریف نے اپنے انجام سے بے پرواہ ہو کر ڈٹ جانے کی راہ اپنا لی ہے ۔ ان کی یہ خواہش حقیقت کا جامہ پہنے گی یا نقش بر آب ثابت ہو گی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے ۔بہت سے لوگ میرے نقطہ نظر سے متفق نہیں ہو ں گے۔اختلاف ان کا جمہوری حق ہے لیکن سچ یہی ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کا استعارہ اب میاں محمد نواز شریف ہے۔،۔
اسٹیبلشمنٹ ایک چال چلتی ہے تو وقت کے بطن سے اس کے منصوبوں کے خلاف کوئی انہونی چال خود بخود واشگاف ہو کر میڈیا کی زینت بن جاتی ہے۔الیکٹیبلز کو ایک ٹوکری میں اکٹھا تو کر لیا لیکن پارٹی کے اندر جس بغاوت نے جنم لیا ہے وہ منصوبہ سازوں کی نظر سے مخفی تھا ۔ اب ٹکٹوں کی بندر بانٹ کے خلاف پی ٹی آئی کے کارکنوں کا شہر شہر اور قریہ قریہ احتجاج جاری ہے۔ یہ پاکستا ن کی تاریخ میں شائد پہلی بار ہو ا ہے کہ کسی جماعت کی ٹکٹوں کی غلط تقسیم پر یوں ہنگامہ کھڑا ہواہے ۔میں نے کئی انتخابات خود لڑے ہیں لیکن میں نے ایسی کیفیت کبھی نہیں دیکھی ۔ دھرنے کی ماہر جماعت کے کارکنو ں نے کئی دنوں تک بنی گالہ میں دھرنا دیا جس سے چیرمین تحریکِ انصاف عمران خان بنی گالہ میں محصور ہو کر رہ گئے ۔ان کی مدد کیلئے پہلے پولیس کی بھاری نفری منگوائی گئی اور جب اس سے کام نہ چل سکا تو پھر رینجرز کی خدمات حاصل کر لی گئی ہیں اور خدا خدا کر کے بنی گالہ کو احتجاجیوں سے پاک کروا لیا گیا ۔بنی گالہ کے باہر لوٹوں کاربازار روز سجتا اور روز گرتا تھا۔
لوٹوں کی روز جوتوں سے پٹائی ہوتی تھی ۔لوٹوں کی ٢٠١٨ کے انتخابات میں جس طرح مٹی پلید ہوئی ہے اس سے قبل کبھی نہیں ہوئی ۔یہ میڈیا کادور ہے لہذا اب معا ملات کودبایا اور چھپایا نہیں جا سکتا ۔ عمران خان خود بھی محسوس کر رہے ہوں گے کہ انھوں نے لو ٹوں کو گلے لگا کر ایک ان دیکھی مصیبت کو گلے لگا لیا ہے جو ا ن کا پیچھا نیں چھوڑے گی۔حامد علی خان جیسے منجھے ہوئے کھلاڑی بھی اب احتجاجی تحریک میں کود پڑے ہیں جس سے اس کی وسعت پذیری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔علامہ ڈاکٹر طاہرا لقادری کی تنقید اور علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال کی بغاوت غیر معمولی نتائج کی حامل ہے۔ولید اقبال کی للکار سے پورا لاہور ہل کر رہ گیا ہے۔اس کی للکار اہلِ دل کو جگا رہی ہے۔ایک طرف بنی گالہ کے مناظر ہیں تو دوسری طرف ہر حلقے میں آزاد امیدواروں کی بہار ہے ۔پی ٹی آئی کی ٹکٹوں سے محروم رہ جانے والے انتخابی مہم کو سبو تاژ کر نے کیلئے میدان میں نکل پڑے ہیں ۔وہ خود تو منتخب نہیں ہوسکیں گے لیکن پی ٹی آئی کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑیں گے ۔ انتقام اندھا ہو تا ہے لہذا کارکن اب انتقام کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ان کا احتجاج در حقیقت پاکستان میں ایک نئے جمہوری کلچر کا آغاز ہے۔احتجاج کرنے والے پاکستان کی جمہوری جدوجہدکے ایسے ہیروہیں جھنیں ساری قوم سلام پیش کرتی ہے ۔انھوں نے ا لیکٹیبلز کو جس طرح رسوا کیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
ان کے احتجاج سے ساری جماعتیں ہل گئی ہیں لہذا وہ اآئیندہ الیکٹیبلز کوسینے سے لگانے سے پہلے سو بار سوچیں گی ۔اب جماعتوں کو سرداروں،وڈیروں،جاگیر داروں اور صنعتکاروں کو ٹکٹ دیتے وقت یہ احساس ضرور ستائے گا کہ ان کا حشر بھی پی ٹی آئی کے لوٹوں جیسانہ ہو۔تمام جمہوریت پسندوں کو بنی گالہ میں دھرنا دینے والے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کرنی چائیے کیونکہ ان کے احتجاج سے عوام پاکستان میں حقیقی جمہوریت کا سورج طلوع ہوتا ہوا دیکھ سکیں گے۔یہ غیر معمولی رویہ ہے اور ایسا کبھی کبھار ہوتاہے۔کیا یہ کم اہم بات ہے کہ دوسروں کو دھرنوں سے ڈرانے والی جماعت آج خود اپنے ہی کارکنوںسے خوفزدہ ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر جماعت متمول طبقے کی ایک مخصوص تعداد کو ٹکٹ جاری کرتی ہے جبکہ پارٹی سے وفا داری نبھانے والوں کو بھی ساتھ لے کر چلتی ہے لیکن پی ٹی آئی نے تو حد ہی کر دی ہے۔راتوں رات چھاتہ بردار فوج کو جس طرح پارٹی کمان سونپی گئی ہے وہ باعثِ حیرت ہے ۔ دو عشروں تک نئے پاکستان کی خاطر جدو جہد کرنے والے کارکن گمنامی میں چلے گے اور راتوں رات پارٹی میں شامل ہونے والے امراء مقدر کے سکندر قرار پائے ہیں ۔عمران خان اٹھتے بیٹھے مغربی جہوریت کی مثا لیں دیتے نہیں تھکتے لیکن کبھی اتنا سوچنے کی ز حمت گوارا نہیں کرتے کہ یورپ میں ایسا کب ہو تا ہے کہ کسی امیر کبیر کو محض دولت کی بنیاد پر ٹکٹ جاری کر دیا جائے ۔انگلستان میں لندن کے مئیر کے انتخاب میں ایک ٹیکسی ڈرائیور کے بیٹے سے گولڈ سمتھ خاندان کی شکست یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ انتخابی جنگ میںسچے کارکن اہم ہوتے ہیں جبکہ پی ٹی آئی انھیں دھتکاررہی ہے۔،۔
تحریر : طارق حسین بٹ شان
(چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال