پشاور (جیوڈیسک) قیام پاکستان کے بعد ہزاروں میل کی ریلوے ٹریک اور اس کا بوسیدہ مواصلاتی نظام ہمیں وراثت میں ملا۔ ریلویزکا مواصلاتی نظام اب عجائب گھرمیں محفوظ رکھنے کے قابل رہ گیا ہے۔ مگر آج بھی ریل کا پہیہ اسی متروکہ اور بوسیدہ نظام کی بدولت چلتا ہے۔
آج بھی فرنگی دورکے اسکریپ شدہ ریلویز کا بوسیدہ نظام مواصلات ہی رائج ہے۔ ملازمین عہدرفتہ کی نشانی کے طور پر اسے سینے سے لگائے اس کی حفاظت پر مامور ہیں اور کیوں نہ کریں، اسی سے ان کے گھر کا دال دلیہ اور ٹرین کا پہیہ چلتا ہے۔ کئی دہائیاں گزر گئیں لیکن کوئی متبادل تلاش نہیں کیا جاسکا۔
ریلوے اسٹیشن میں داخل ہوتے ہی انسان ایک صدی پہلے کے دور میں چلا جاتا ہے۔ یہاں ٹرین آنے کی اطلاع گھنٹیاں بجا کر دی جاتی ہے، سگنلز اٹھائے اور گرائے جاتے ہیں۔ اتھارٹی کے طور پر ٹوکن بال دیا جاتا ہے۔ لوکیشن کا مینول گراف بنایا جاتا ہے۔ یہ ہے پاکستان ریلویز۔ جنکشن باکس ایک اور عجوبہ ہے۔
اس سے نکلنے والا یہ ٹوکن بال، ٹرین چلانے کی اتھارٹی ہے۔ ٹوکن بال نہ ہو تو ٹرین چلانا جرم سمجھا جاتا ہے۔ ان آثار قدیمہ کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ ریلوے ملازمین کی فوج ظفر موج بھی ترقی سے ایسی ہی بیزار لگتی ہے، جیسا پاکستان ریلوے ترقی کی پٹری پر چڑھنے سے گریزاں ہے۔