تحریر : اسامہ اکرام لائبریری کے پرسکون ماحول میں تاریخ پاکستان کا مطالعہ کرتے ہوئے مجھے ایسامعلوم ہورہاتھا کہ اس بے جان کتاب کے اوراق میں سے کچھ ستارے نکل کر نیلگوں آسمان کو چمکارہے ہیں جو ایک عرصہ تک اپنی روشنی سے اس خطے کے مسلمانوں کو راہ عمل دکھاتے رہے اوربالآخر اپنے لہو سے اس چمن کو معطر کرگئے۔وہ ستارے کہ جنہوں نے مسلمانانِ برصغیر کے کل کے لیے اپناآج قربان کیاتھا… جنہوں نے انگریزوں کے لایعنی آسمان حکومت پرچمکنے کی بجائے برصغیر کے قریہ قریہ اورگلی کوچوں کواپنامحور بنایا…وہ کہ جنہوں نے احیائے دین اور برصغیر کی آزادی کے لیے قریباً دو سو سال پہ محیط ایک لمبی تحریک چلائی۔وہ حامیان تحریک کہ جن کی آنکھیں دیکھتی تھیں تو مسلمانانِ برصغیرکے زخم…کان سنتے تھے تو مسلمان بہنوں کی آہ وبکا…رگوں میں خون دوڑتا تھا توسامراج سے ٹکرانے اور ہندو توا کے نظریہ کاپرچار کرتی مہاسبھا’ سنگھٹن اورشدھی کی تحریکوں کوپاش پاش کرنے کے لیے… دل دھڑکتا تھاتووہ دن دیکھنے کے لیے جب کروڑوں مسلمانوں کے اس ملک میں مسلمانوں کو دوبارہ حکومت وسطوت ملے۔اب میں خیالاتِ گزشتہ کی رَو میں بہتاہوا پراشک آنکھوں کے ساتھ اور دل ودماغ پرایک بارعظیم لیے ہوئے اپنی قوم کے عظیم الشان اور قربانیوں کی داستان سے لبریز ماضی کے دروازے پردستک دے رہاتھا اور جب میں نے تاریخ کی مددسے اِس دروازے کے پار جھانکا تو میرے سامنے ماضی قریب میں بپاہونے والی ایک ایسی تحریک تھی جوکہ اپنے دامن میں عالمی اسلامی اخوت کاجذبہ سموئے ہوئے تھی۔جس نے وقت کی تمام استعماری قوتوں، برطانوی سامراج اور ہندو بورژ واکے مشترکہ خوفناک عزائم اور اپنوں اورغیروں کی سازشوں کامقابلہ کرتے ہوئے ایک نئی تاریخ رقم کی۔وہ تحریک کہ جس نے دنیاکا مجوزہ نقشہ اورجغرافیہ کو بدلتے ہوئے ایک آزاد اسلامی نظریاتی مملکت کو جنم دیا۔
اب میرے دل ودماغ پر یہ سوال لگاتار ضربیں لگارہاتھا کہ 1757ء کی جنگ پلاسی میں مسلمانوں کو شکست کے بعدچلنے والی قریباً دو سوسال پہ محیط یہ تحریک کہ جو کبھی شاہ ولی اللہ ان کے بیٹے شاہ عبدالعزیز اور پھر ان کے جانشین سیدین (سیداحمدشہید اورسیداسماعیل شہید) کی تحریک المجاہدین کی شکل میں چلتی رہی اورپھر1831ء میں سیدین کی شہادت کے بعد بغاوت کی تحریک جوکہ 1857ء کی جنگ آزادی اورپھربنگال سے فرائضی تحریک کے نام سے چلی آخر اس تحریک کامقصد کیاتھا ۔پھر یہی تحریک 1886ء میں سرسیدکی آل انڈیا محمڈن کانفرنس اور 1919ء میں علی برادران (مولانا محمد علی جوہر اورمولانا شوکت علی )کی زبردست تحریک خلافت کے پلیٹ فارم میں تبدیل ہوگئی اورپھراس کے بعد اقبال اورقائداعظم کی قیادت میں مسلم لیگ کی تحریک تقسیم ہند کے نتیجہ میں قیام پاکستان کے بالآخر اغراض ومقاصد کیاتھے۔وہ کیامحرکات تھے جن کی بنا پہ برصغیر کی دو صدیوں پہ محیط یہ سب سے بڑی تحریک چلائی گئی تھی۔ وہ اصل مدعاکیاتھا جس کے لیے خون کی ندیاں اپنی لاشوں کے پل بناکہ پارکی گئی تھیں۔توتاریخی تناظرمیں اس عظیم الشان تحریک کے اصل محرکات ،اغرا ض ومقاصد اورمدعا کا مختصر اور جامع جواب ”دوقومی نظریہ” اور ہندومسلم تہذیب کاٹکراؤتھا۔1صدی ہجری (ساتویں صدی عیسوی)میں نبی کریمeاورصحابہ کرامy کے دور سے ہی اس خطہ برصغیرکے مظلوم انسانوں کے لیے غزوہ ہند شروع ہوا جس نے ذات پات کے بندھنوں میں جکڑے ہوئے اور شودر و اچھوت کے دھبے کی وجہ سے ساتھ ظلم واستبداد کاشکار انسانوں کے لیے ایک واضح امیدکی کرن پیداکی اور اس خطہ میں آٹھویں صدی عیسوی کے شروع 712ء میں محمد بن قاسم کی آمد اورمقامی رعایا کااس کوزبردست انداز میں خوش آمدید کہنااوربتدریج اسلام کے دامن پناہ میں آکر حلقہ بگوش ایمان ہونا صرف تین سال کے عرصہ میں 715ء (محمدبن قاسم کی واپسی)تک ہندوستان کا وسیع علاقہ مسلمانوں کے زیرتصرف آجانا،اسلام کا انسانیت کے لیے بطورِ رحمت اوراس خطہ میں موجودہندومت کا ایک ہولناک زحمت ہونے کا واضح اورکھلاثبوت ہے۔ لیکن تاریخ اورظلم وبربریت ‘ہندومت کی تنگ نظری پہ شاہدہے۔ حتی کہ بدھ مت کہ جس کی مسلمانوں سے پہلے قریباً 600 سال تک برصغیر پہ حکومت رہی ،وہ بھی ہندومت کاشکار ہوگئی کیونکہ ہندومت کے اندرانتہادرجے کاتعصب ہے اوریہ یہودیوں کی طرح اپنے سوا ہرایک کو اچھوت(ناپاک) سمجھتے ہیں۔
لہٰذا محمدبن قاسم کی واپسی کے صرف چالیس سال بعد جب مسلمان اندرونی خلفشار کی وجہ سے ذرا کمزور ہونا شروع ہوئے توہندؤوں نے مسلمانوں کے حسن سلوک کو پس پشت ڈالتے ہوئے اور بدھ مت والا سلوک ان کے ساتھ اپناتے ہوئے ان پربرصغیرمیں رہنے کی جگہ تنگ کر دی۔اس وقت مسلمانوں نے اپنے آپ کو ظالم ہندؤوں کے بلوؤں سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک علیحدہ بستی ”محفوظہ” کی بنیاد رکھی تھی(جوکہ دریائے سندھ جس جگہ دو حصوں میں بٹتاہے وہاں پر بنائی گئی تھی) یہی بستی بعدمیں منصورہ شہرکاحصہ بن گئی۔اس اعتبار سے برصغیر میں محفوظہ مسلمانوں کاپہلا”ننھاپاکستان” تھا۔جس کی بنیاد دو مقاصدپررکھی گئی تھی ۔ایک تو ہندؤوں کے فرقہ وارانہ فسادات اور بلوؤںسے بچا جاسکے اوردوسرایہ کہ یہاں سے قوت حاصل کرکے دوبارہ ہندوستان کو اسلامستان بنانے کے سفر کوجاری کیاجائے۔اس کے بعد ایک لمباعرصہ مسلمانوں کی برصغیر پر بلاشرکت غیرے حکومت قائم رہی لیکن پھراسلامی روح کی اغراض کی بدولت دور زوال شروع ہوا۔ جس طرح ہندو مت کی فطرت میں خودپسندی اورانتہادرجہ کی تنگ نظری ہے،اسی طرح اسلام کی فطرت میں بھی ہمیشہ غالب ہوکر ہی بنا ہے۔لہٰذامسلم اورہندو تہذیبی ٹکراؤ ایک فطری معاملہ تھا لیکن اب دور مسلمانوں کے زوال کا تھا۔لہٰذا اخلاقی انحطاط اور کسمپرسی اپنے عروج پرتھی اوراس پرمزید یہ کہ بیرونی حملہ آور دشمن صلیبی انگریزاور اندرونی حملہ آور دشمن ہندوبنیا کا گٹھ جوڑ تھااور مسلمان چکی کے ان دوپاٹوں کے درمیان پس رہے تھے۔
23 March
لیکن یہ تومسلمانوں پراللہ رب العزت کاخاص کرم ہواکہ انہیں شاہ ولی اللہ سے لے کر اقبال اور قائداعظم تک ایک زبردست باشعور قیادت میسرآگئی جس نے ایک ہی وقت میں دومحاذوں پر دشمنوں کاڈٹ کرمقابلہ کیا اور اسلامی تشخص اور وقار کو مجروح نہ ہونے دیا۔سیدین کی تحریک المجاہدین سے شروع ہوکر مسلم لیگ تک پہنچنے والی اس تحریک کے تین واضح مقاصد تھے جو کہ برطانوی سامراجیت کاخاتمہ،رام راج سے نجات اور ایک ایسی اسلامی مملکت کاقیام جو”محفوظہ” کی طرح مسلمانوں کی حفاظت اور قلعہ کاکام دے اوروہ کہ جہاں سے اسلام دوبارہ قوت وطاقت حاصل کرے۔1947ء میں دوسوسال سے قربانیاں پیش کرتی اس تحریک نے ایککامیاب موڑلیتے ہوئے اپنے کچھ مقاصد توحاصل کرلیے جس میں بظاہر برطانوی سامراجیت کاخاتمہ اور قیام پاکستان بھی شامل تھا لیکن ابھی برصغیر سے رام راج کاخاتمہ سمیت بہت سے مقاصد باقی ہیں گویاکہ جب تک تمام ترمقاصدحاصل نہیںہوجاتے یہ تحریک جاری رہے گی۔ بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح اورمفکر پاکستان ڈاکٹر علامہ محمداقبال کے سامنے پاکستان کے قیام کے واضح مقاصد تھے جوکہ ہرپہلوسے اسلام اورحامیانِ اسلام کے علاقائی اورعالمی مفادات کااحاطہ کیے ہوئے تھے۔علامہ مرحوم نے 28مئی1937ء کو ایک خط میں قائداعظم کولکھا کہ ”اسلامی شریعت کانفاذ اور ترویج مسلمان ریاست یاریاستوں کے قیام کے بغیرناممکن ہے اور میرا یہ یقین ہے کہ مسلمانوں نے بانی پاکستان کے سامنے کے معاشی اور معاشرتی مسائل کاحل اسی میں ہے۔”اپنے اس خط میں علامہ محمداقبال مسلمانوں کے لیے ایک یاایک سے زیادہ آزاد مسلم مملکتوں کااحیائے اسلام و شریعت کے لیے قیام کاواضح مؤقف پیش کیا۔10مارچ1941ء کو مسلم یونیورسٹی یونین’ علی گڑھ سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے قیام پاکستان کامقصد اس خطہ میں اسلام کی حفاظت کوقرار دیا۔ آپ نے فرمایا”پاکستان نہ صرف ایک قابل عمل مقصد ہے بلکہ یہ اسلام کو اس مملکت میں انہدام سے بچانے کا واحد راستہ ہے۔”یعنی کہ مملکت خداداد کاحصول اسلامی معاشرہ کے قیام اور اسلامی اقدار کی حفاظت کے لیے تھا۔
مفکر پاکستان حضرت علامہ محمداقبال نے اپنے خطبہ الٰہ آباد میں پاکستان کی اساس کچھ یوں بیان کی کہ ”ایک سبق جوکہ میں نے مسلمانوں کی تاریخ سے سیکھاہے کہ اپنی تاریخ کے اس نازک ترین مواقع پر یہ اسلام ہی ہے جوکہ مسلمانوں کو نجات عطاکرے گانہ کہ اس کے برعکس کچھ اور…لہٰذا آپ اپنی نظر کو اسلام پرمرکوز رکھیں”یعنی کہ خدادِکی بنیاداسلام کوقرار دیاگیا اس پر مزید یہ کہ بانی پاکستان نے اپنی اورمسلم لیگ کی تمام تر کوشش وکاوش کو اسلام کی سربلندی کے لیے لڑی جانے والی جنگ قرار دیا۔آپ نے14اپریل 1943ء کو قیام پاکستان سے پہلے سرحد میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایاکہ ”میں واضح طورپر کہہ رہاہوں کہ پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنے آپ کو تیار کرلوکیونکہ یہ وہ ہے جو ہمیں اس قابل بنائے گا کہ ہم اپنامقصد حاصل کریں اور اس طرح اس خطہ میں اپنی آزادی ، عزت وشوکت اوراسلام کی سربلندی کوقائم رکھ سکیں جس کے لیے اب ہم جنگ کررہے ہیں۔”قائداعظم کے اس فرمان میں ”اپنے مقصد کو حاصل کرنے” میں پوشیدہ ایک واضح بیان تھاکہ وہ پاکستان کو اسی”محفوظہ” کی طرح بیس کیمپ بناکر ہندؤوں کی طرف سے مسلمانوں پہ جاری ظلم وستم کو روکنے کے لیے عملی جہاد وقتال کا مصمم ارادہ رکھتے تھے۔یہ ایک من گھڑت اورخودساختہ تصورہے کہ بانی پاکستان ایک سیکولر مملکت کاقیام چاہتے تھے نہ کہ ایک نظریاتی اوراسلام کے قلعہ کی حیثیت رکھنے والی مملکت پاکستان۔قائداعظم اورعلامہ محمداقبال پاکستان کو تمام عالم اسلام کے لیے ایک راہبراوررہنما کی حیثیت سے دیکھنا چاہتے تھے ،ان کامقصد مسلمانوں کے لیے اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے ایک ایسی آزاد اسلامی مملکت کاحصول تھا جو اپنے مقامی مفادات کے ساتھ ساتھ عالم اسلام کے مفادات کی بھی محافظ ہو۔قائداعظم محمدعلی جناح دنیاکے تمام کافروں اور تمام ادیان باطلہ کے پیروکاروں کو اسلام اور اسی لحاظ سے پاکستان کامشترکہ دشمن قرار دیتے تھے۔آپ نے قیام پاکستان سے پہلے اپنااور علامہ اقبال کانظریہ ومنشور بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ”میں دیکھ رہاہوں کہ انڈین کانگریس حکومت بنانے کے بعد برطانوی ٹھگوں کو تویہاں سے نکال دے گی مگرپھر خود ٹھگ بن جائے گی اوریہ لوگ صرف مسلمانوں ہی کی آزادی ختم نہیں کریں گے بلکہ اپنے لوگوں (مظلوم شودراور دیگر اقلیتوں) کی آزادی بھی ختم کردیں گے۔اس لیے ہم سب کو قیام پاکستان کے لیے زبردست کوشش کرنی چاہیے اور ذرا خیال توفرمائیں کہ اگریہاں لاالٰہ الااللہ پرمبنی حکومت قائم ہوجائے توافغانستان،ایران،ترکی، اردن، بحرین،کویت ،حجاز، عراق، فلسطین، شام، تیونس، مراکش، الجزائر اورمصرکے ساتھ مل کر ایک عظیم الشان مسلم بلاک بن سکتاہے اوراقبال کی طرح میرابھی یہ عقیدہ ہے کہ کوئی سوشلسٹ یاکیمونسٹ مسلمان نہیں ہوسکتا ۔خواہ وہ پیر یامولانا ہی کیوں نہ ہو کیونکہ ان نظاموں کے بانی یہودی تھے۔ آپ کو سمجھ لیناچاہیے کہ سوشلزم اورکیمونزم مسلمانوں کے لیے ایک ایسازہرہے کہ جس کاکوئی تریاق نہیں اوریہ بات بھی واضح ہونی چاہیے کہ یہودی،انگریز، سوشلسٹ ، کیمونسٹ ،ہندو اورسکھ سب مسلمانوں کو مٹانے کے درپے ہیں۔”
Muhammad Ali Jinnah
قائداعظم نے اس تفصیلی بیان واشگاف الفاظ میں قیام پاکستان کے تمام اغراض ومقاصد بیان کر دیئے ہیں جوکہ سیکولرلوگوں کے منہ پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔دسمبر1946ء میں اپنے دورہ عالم اسلام کے دوران قائداعظم نے قاہرہ(مصر) میں قیام پاکستان کو تمام اسلامی دنیاکے مفاد اور عالم اسالم کومستقبل کے ہندو سامراج سے بچانے کے لیے ایک اہم ذریعہ قرار دیا۔ آپ نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران فرمایاکہ”اگر ہندوستان پاکستان نہ بن سکا تواس کا مطلب یہ ہوگا کہ اسلامی دنیا اور مشرق وسطیٰ کی عرب آبادی مبتلائے مصیبت ہوجائے گی اور ہندوستان میں انگریز کے بعدہندوسامراج قائم ہوجائے گا اور یہ انتہائی خطرناک ہوگاکیونکہ اس سے مشرق وسطیٰ کے تمام اسلامی ممالک تیل کی کڑاہی سے نکل کر چولہے کی آگ میں گرپڑیں گے۔”اپنے اس خطاب کے دوران محمدعلی جناح نے عالم اسلام کے سامنے ہندو کے خوفناک اسلام دشمن اور وسیع پسندانہ عزائم کاپردہ چاک کیا اور پاکستان کوتمام عالم اسلام کے لیے برطانیہ کے نئے تیار کردہ پھندا سے بچانے کے لیے ڈھال اور قلعہ قرار دیا۔مفکرپاکستان علامہ اقبال،بانی ٔپاکستان قائداعظم محمدعلی جناح،قائدملت لیاقت علی خان سمیت تحریک پاکستان کے تمام اکابرین پاکستان میں اسلامی شریعت کانفاذ اور اسے ایک عظیم تراوروسیع ترین اسلامی مملکت بناناچاہتے تھے26جنوری 1948ء کو قیام پاکستان کے اپنے خطاب کے دوران بانی پاکستان نے فرمایا”کہ یہ کہاجارہا ہے کہ پاکستان میں اسلامی شریعت نافذ نہیں ہوگی۔ یہ شرارتی عناصر کاپروپیگنڈہ ہے۔وہ اس سے بازآجائیں۔ پاکستان میں اسلامی شریعت نافذ کی جائے گی اور مسلمانوں کو کسی نئے پروگرام کوتلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان کے پاس قرآن پاک کی شکل میں تیرہ سوسال قبل سے ایک مکمل دستورموجودہے۔”اور پھر1949ء میں محمد علی جناح کے جانشین قائد ملت اور پاکستان کے پہلے وزیراعظم جناب لیاقت علی خآن نے بھی قراردادِ مقاصد میں اس بات کااعائدہ کیا۔ جسے من وعن دستورپاکستان میں شامل کردیاگیا جو آج بھی ہمارے آئین کاحصہ ہے۔الغرض مسلمانوں کی یہ دوسوسال پرانی تحریک کے مقاصد میں قیام پاکستان ،اسلامی نظام شریعت کانفاذ، اتحاد عالم اسلام اورانسانیت کی بقا کے لیے ہندوستان میں ایک وسیع تر اسلامی ریاست کاقیام تھا۔ اس بات کااعائدہ شاہ ولی اللہ اورسیدین سیلے کر بانی پاکستان تک تمام مسلمان قائدین کرتے رہے۔حتی کہ قائداعظم اپنی وفات سے پہلے غزوہ ہند کے حوالہ سے یہ ارشاد بھی فرماگئے کہ”میں نے تمہارے لیے انگریز(صلیبی )اورہندو سے ایک چھوٹا ساخطہ چھین لیا ہے ،اب اس کو وسیع کرنااور باقی علاقوں کو اپنے ساتھ ملانا تمہارے ذمہ ہے۔”غرضیکہ آج ہمیں اپنی ذمہ داریوں کااحساس کرتے ہوئے اپنے پیشرو بزرگوں کے اغراض ومقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے قربانیوں کی داستان رقم کرناہوگی تاکہ ہم قیام پاکستان کے تمام اغراض و مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں۔