تحریر : روشن خٹک میرا ایک پوتاہے، شایان خٹک، جب کالم لکھنے بیٹھ جاتا ہوں تو وہ چپکے سے پہلو میں آکر بیٹھ جاتا ہے،وہ میرے پیار کا متلاشی ہوتا ہے ۔میں غیر شعوری طور پر ہاتھ پھیلا کر اسے آّغوشِ محبت میں لے لیتا ہوں مگر شعوری طور اس سے غافل ہوتا ہوں ۔ پتہ نہیں ، اسے کیسے وجدان ہو تا ہے کہ با با اس سے فریب کر رہا ہے ۔وہ چپ چاپ خاموش بیٹھا رہتا ہے، کبھی اٹھ کر چلا جاتا ہے اور پھر دبے پائوں معمول کے مطابق بغل میں آکر بیٹھ جاتا ہے……ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعد جب میں کالم مکمل کر کے کاغذ قلم سمیٹ کر گیان دھیان کی نگری کو ڈھا دیتا ہوں تو اچانک شایان کی شوخی لوٹ آتی ہے۔ آنکھیں چمکنے لگ جاتی ہیں اور وہ چمک کر کہتا ہے ” بابا ! کام ختم ہو گیا ….َ؟۔
تب میں اسے گلے لگاتا ہوں، بے اختیار اسے چومتا ہوں…یوں دیکھتے دیکھتے ایک نئی نگری بس جاتی ہے۔” تب میں سوچتا ہوں، کہیہ نگری اچھی ہے، جس میں معصومیتوں کی کلیاں پھو ٹتی ہیں یا وہ نگری اچھی ، جس میں تخلیق کے کرب کی لذّت آفرینیاں ہیں ؟ لیکن کوئی فیصلہ نہیں ہو پاتا ۔ نہ اسے چھوڑنے کا یارا ، نہ اسے نظر انداز کرنے کی ہمت ۔ زندگی میں کئی سچ پہلو بہ پہلو چلتے ہیں ، سالہا سال چلتے ہیں ۔عمریں گزر جاتی ہیں مگر ان کا تصادم نہیں ہوتا …..مثلا بعض لوگوں کے نزدیک دولت کا حصول ایک سچ ہے اور بعض کے نزدیک اقتدار کا حصول بھی سچ۔۔۔
لیکن ایک ہم اہلِ قلم ہیں کہ ایک ہزار ایک سچ پال رکھے ہیں ۔ تخلیق کے کرب کا سچ ، بچے کے ننھے منے ہاتھوں کو چومنے کا سچ، دوستوں میں مِل بیٹھنے کا سچ، بنی نوع انسان کی آسودگی کا سچ، اس کے علاوہ سینکڑوں چھوٹے موٹے سچ کہ ہر سچ کے پیچھے لپکنے کو جی چا ہتا ہے ۔سوشل میڈیا پوری دنیا کے لئے رابطے کا ذریعہ تو ہے ہی مگر ساتھ ساتھ اس میں ایسا سچ بھی پڑھنے کو مِل جاتا ہے جو ذہن میں ارتعاش کا باعث بن جاتا ہے ایسا ہی ایک سچ ہمیں فیس بک پر مِلا، نبیلہ سارا نامی خاتون میری فیس بک فرینڈ ہے ،برطانیہ میں فلسفہ کی طالبہ ہے پاکستان کے حالات پر گہری نگاہ رکھتی ہے َ ۔ شائستہ انگریزی لکھی ہوئی ان کی تحریر کا اردو ترجمہ ملاحظہ فر مائیے، وہ لکھتی ہیں ………!۔
peace
” حکیم الامت علامہ اقبال اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ افغانستان میں امن قائم کئے بغیر پورا ریجن ہمیشہ خون آلود ہی رہے گا،پس یہ استدلال ہے اس بات کا، کہ ہم افغانستان کو را (RAW) یا کسی دوسرے ملک کے رحم و کرم پر اکیلا نہیں چھوڑ سکتے،ہمیں ہر صورت میں افغانستان میں پاکستان دوست حکومت قائم کریں گے خواہ اس کے لئے ہمیں دس لاکھ مرد و خواتین کی قربانی کیوں نہ دینی پڑ جائے۔افغانستان میں لازما پاکستان دوست حکومت ہو نی چا ہیئے۔پوری دنیا جانتی ہے کہ ہمارے پڑوسی ممالک کو افغانستان کے وساطت سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا ٹاسک سونپا گیا ہے۔مگر آئی ایس آئی کو اس سازش کا مکمل ادراک ہے اور وہ اپنے ملک کے تحفظ کے لئے مستعد ہے، انشااللہ افغانستان میں پاکستان دوست حکومت ہی قائم ہو گی۔اور پاکستان سنٹرل ایشیا میں رسائی حاصل کر کے سپر پاور بنے گا۔
افغانستان کے بارے میں علامہ اقبال کا مشہور شعر ہے ” آ سیا یک پیکر آب و گل است……………………ملت افغان در ایں دل است از فساد او فساد آسیا …………………….از کشاد او کشاد ایشیا ”ترجمہ ” ایشیا کے آب و گل میں ملتِ افغان کی مثال دل کی ہے، اگر افغانستان میں فساد ہو گا، تو پورے ایشیا میں فساد ہو گا،اور اگر وہاں پر امن و امان ہو گا تو پورے ایشیا میں امن و سکون ہو گا……”” یہ تھا نبیلہ کا لکھا ہوا وہ سچ، جس نے ہمارے قلم کو جنبش دی اور کالم لکھنے کا باعث بنا۔اگرچہ زندگی مختصر ہے،اتنی مختصر کہ ان میں بہت سی سچائیوں کو چھوئے بغیر ختم ہو جاتی ہے، پھر ہم جیسے قلم کار جو ایک ہزار ایک سچا ئیوں کا ذائقہ چکھنے کی آرزو رکھتے ہیں، بے شک بکھر جاتے ہیں
مگر میرے نز دیک زندگی یہی ہے کہ بارش کے قطروں کی طرح پھیل جائو….کہ دھرتی اسی عمل سے شاداب ہو تی ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ سچ یہی ہے جو علامہ اقبال نے سوچا اور نبیلہ نے اس کا حوالہ دیا۔ افغانستان میں امن قائم کئے بغیر پورے ایشیا میں امن کا خواب کبھی شر مندہ تعبیر نہیں ہو سکتا اور یہ کہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے علمی سازشیں ہو رہی ہیں مگر ہمیں اللہ پر بھروسہ اور اپنے عسکری اداروںپر پورا پورا یقین ہے کہ وہ کبھی ان ساشوں کو کامیاب نہیں ہو نے دیں گے اور بہت جلد ہمارا یہ پیارا ملک پاکستان دیگر اسلامی ممالک کے لئے روشنی کا مینار ثابت ہو گا ، انشا اللہ”۔