قیام امن کا فارمولا

United Nations

United Nations

اقوام متحدہ کو وجود میں آئے کئی دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن آج تک مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہے۔ 24 اکتوبر 1945ء کو اقوام متحدہ کا باقاعدہ قیام وجود میں آیا۔بین الاقوامی تنظیم کے ابتدائی ارکان 150 تھے جن کی تعداد وقت کے ساتھ بڑھتی رہی۔اقوام متحدہ کے چارٹر کے بنیادی اُصول و مقاصدیہ تھے (1) بنی نوع انسان کی آئندہ نسلوں کو جنگ کی تباہ کاریوں سے بچانا(2) قوموں کے باہمی تنازعات کے حل کیلئے بین الاقوامی سطح پر موثر قانون سازی کرنا تاکہ امن کولاحق خطرات اور جارحیت کو روکا جا سکے(3)انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے عالمی سطح پر بلاامتیاز رنگ و نسل مثبت اقدامات کرنا(4)انسانوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانا (5)ایک دوسرے کی آزادی اور خود مختاری کا احترام کرتے ہوئے قوموں کے درمیان دوستی کو فروغ دینا اور ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی سے روکنا۔

آج اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی تعداد 192 کے قریب ہے۔دنیا کے 200 کے قریب امیر اور طاقتور ممالک مل کر آدھی صدی سے زیادہ وقت گزر جانے کے باوجود دنیا میں امن قائم کرسکے اور نہ ہی انسانیت کی فلاح و بہبود میں پیش رفت ہوسکی۔آج پوری دنیا دہشتگردی اور بدامنی کی لپیٹ میں ہے ۔ہر کوئی قیام امن کی کوششوں میں مصروف ہے۔زمین سے فضا اور فضا سے پانی کی گہرایئوں تک دہشتگردی کے خلاف جنگ جاری ہے۔ایک دوسرے کو دہشتگردی کا ذمہ دار قرار دے کر ہر کوئی اپنے آپ کو درست ثابت کرنے کی کوشش میں ہے لیکن کبھی کسی نے ا صل فارمولے پر عمل کی کوشش نہیں کی ۔افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ مسلم ممالک بُری طرح دہشتگری کی لپیٹ میں ہیں ۔آسان اور ضروری اقدامات نہیں اُٹھا رہے۔

یہا ں میں اس بندر بادشاہ کی مثال دینا ضروری سمجھتا ہوں جس نے جنگل کو بچانے کیلئے بہت بھاگ دوڑ کی لیکن جنگل آفت سے نہ بچ سکا۔مختصر بیان کرتا ہوں۔جنگل کے تمام جانوروں نے شیر کی بادشاہت سے تنگ آکر متفقہ طور پر جنگل میں جمہوریت نافذ کرنے کا فیصلہ کیا الیکشن ہوا تو فیصلہ بندر کے حق میں ہوگیا ۔اب جنگل میں شیر کی بجائے بندر کی حکمرانی قائم ہوگئی ۔بندر کو بادشاہ بنے چند دن ہی گزرے تھے کہ جنگل میں آفت آگئی سب جانور اپنے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فریاد کی کہ جنگل کو آفت سے بچایا جائے۔بندر نے تسلی دیتے ہوئے کہا کوئی بات نہیں وہ دیکھ لے گا۔بندر نے ایک درخت سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے پر چھلانگیں لگانا شروع کردیں ،جب آفت نے سارا جنگل تباہ و برباد کردیاتو زندہ بچنے والے جانوروں نے بادشاہ سلامت سے کہا عالم پناہ آپ نے تو جنگل کو بچانے کی کوشش بھی نہیں کی۔بادشاہ سلامت بولے ہم نے تو بہت بھاگ دورڈ کی لیکن خُدا کو یہی منظور تھا۔میرے وطن کے حکمران قابل اور بہت محنتی ہیں لیکن اصل فارمولے پر عمل کرنے سے گریزاں ہیں۔اُن کی قابلیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایٹمی دھماکے کرنے کے بعد سر اُٹھاکر چلنے کی بجائے مالیاتی ایمرجنسی لگاکرسنگین ترین غلطی کرنے کے بعد ڈالر کے سامنے گھٹنے ٹیکنے والے حکمران اب ڈالر سے ہاتھا پائی کرکے خودکو اہل اور سچا ثابت کرنے کی کوشش میں ہیں۔ایٹمی دھماکوں کے فورا بعد مالیاتی ایمرجنسی لگانے والے حکمران شائد یہ نہیں جانتے کہ مالیاتی ایمرجنسی اُس وقت لگائی جاتی ہے جب خُدانخواستہ ملک ٹوٹنے کا خطرہ پید اہوجائے۔ امریکی ڈالر کو ناک آوٹ کرنے والے حکومتی پٹھا پہلوان آلو سے ہار گئے۔جیسا کہ آپ جانتے ہیں انہوں نے ڈالر کی قیمت کو نیچے لانے کے بعد آلو کی قیمت کو 60سے30روپے تک لانے کی حامی بھری تھی لیکن آلو کی تمام سبزیوں سے واقفیت نے بچا لیا۔

Potato

Potato

آلو کے حق میں سبزیوں کی بے شمار سفارشات نے طاقت ور پہلوان کو زیر کر دیا۔بات بھی سچ اگر آلو نے احتجاج شروع کر دیا تو بیچاری سبزیاں کہاں جائیں گی؟ہمارے پہلوان ہرگز اعتراف نہیں کریں گے کہ وہ آلو سے ہار گئے لیکن باربار دہشتگردوں کی کمر توڑنے کا دعویٰ کرنے والا امریکی محکمہ خارجہ اس بات کا اعتراف کررہاہے کہ دہشتگرد پہلے سے زیادہ منظم ہوچکے ہیں ۔امریکی محکمہ خارجہ کی تازہ رپورٹ میں ماضی کے اس دعوے کی تردید کردی گئی ہے کہ دہشتگردی کے خلاف دیگر القائدہ رہنمائوں کے ساتھ اُسامہ بن لادن کی موت کے بعد القائدہ کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔اُسامہ بن لادن کی موت کے بعد بڑی کامیابی کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اب دہشتگردی کو جڑسے اکھاڑنے میں دیر نہیں لگے گی۔امریکی محکمہ خارجہ کی حالیہ رپورٹ میں میں کہا گیا ہے کہ دنیا اب بھی دہشتگردی کی لپیٹ میں ہے۔

رپورٹ کے مطابق القائدہ اب نئی حکمت عملی کے تحت کام کررہی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان اور عراق میں القائدہ نے چھوٹے چھوٹے خودمختار گروپ تشکیل دے دیئے ہیں،جو پہلے سے زیادہ متحرک اور سنگین نوعیت کی دہشتگردی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ان گروپوں نے چمن،افریقہ، صومالیہ شام اورعراق میں حالیہ دنوں میں موثر کارروائیاں بھی کی ہیں۔ہمیشہ کی طرح تازہ رپورٹ میں بھی فرقہ واریت کو موضوع بناکر مسلم ممالک کودہشتگرد ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔رپورٹ میں عراق،یمن اور پاکستان کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ مسلم دنیا کے دو اہم ترین فرقوں کے درمیان گشیدگی نے القائدہ کو تقویت بخشی ہے ۔یہ بھی کہا گیا ہے کہ فرقہ وارنہ گشیدگی سے منظم ہونے والی قوتیں آخر کار مغرب کو ہی نشانہ بنائیں گی۔راقم جیسے بہت سے کم عقل لوگوں کے ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر مذہبی فرقہ واریت سے پیدا ہونے والی کشیدگی کا مغرب کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ کیوں مغرب اس بات سے خائف رہتا ہے کہ مسلمان اس کے دشمن ہیں؟اور کیوں مشرق اپنے ہر مسئلے کا ذمہ دار مغرب کو ٹھہراتا ہے ؟ایسے بہت سے سوالوں کے جوابات میری کئی گزشتہ نسلوں کو نہیں ملے لیکن ایک بہت ہی اہم سوال کا جواب مجھے اُس وقت ملا جب آستانہ آوسیہ قصور میں راقم کی ملاقات روحانی شخصیت سید عرفان احمد شاہ صاحب سے ہوئی آپ نے پوچھا امتیاز کبھی امن کے موضوع پر لکھا ہے۔

راقم نے جواب دیا شاہ جی لکھا ہے ۔شاہ صاحب نے پوچھا کیسے امن قائم ہوسکتاتو میں نے کہا مذاکرات ہی بہتر راستہ ہے۔شاہ صاحب نے فرمایا نہیں جب تک اللہ تعالیٰ کے خلاف ہونے والی جنگ سے باہر نہیں نکلوگے امن قائم نہیں ہوسکتا ۔چاہے جنگ کرو یا مذاکرات۔جہاں جہاں سودی نظام چلے کا بدمنی نہیں جائے گی ۔مثال کے طور پر کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھاآج دہشتگردی ،بھتہ خوری بدمنی سمیت قتل و غارت گری کے نرخے میں بُری طرح پھنس چکا ہے ۔کبھی کسی نے سوچا کہ انتظامیہ کی بھر پور کوششوں کے باوجود کراچی کا امن کیوں بحال نہیں ہوا؟جب تک کراچی کے تمام مالیاتی ادارے سودی نظام کے تحت چل رہے ہیں تب تک کراچی کا امن بحال نہیں ہوسکتا۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ”اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو،اور چھوڑ دو جو کچھ سود میں سے باقی رہ گیا اگر تم مومن ہو،پھر اگر نہیں چھوڑتے تو تیار ہوجائولڑنے کیلئے اللہ اور اُس کے رسول رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے(سورة البقرہ )”سود کو اسلام میں حرام قراردیا گیا ہے ۔یہ خیال کہ سود سے مال میں اضافہ ہوگا یہ بھی ایک خام خیالی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا اور صدقات کو بڑھاتا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے ۔سود سے بظاہر تومال میں اضافہ ہوتا ہے لیکن درحقیقت یہ اضافہ دنیا وآخرت کا بہت بڑاخسارہ ہے ۔دنیا میں خسارے کا مطلب یہ ہے کہ سود کی کمائی انسان کے ایسے کاموں میں لگ جاتی ہے جن میں کوئی فائدہ نہیں ہوتا ایسے امراض اور ناجائز مقدمات نیز مختلف قسم کی جوحادثاتی صورتیں ہیں۔ان میں وہ سودی روپیہ لگ جاتا ہے اور بندے کو مختلف الجھنوں میں پھنسا دیتا ہے۔اورآخرت کا خسارہ یہ ہے کہ سود کا لین دین کرنے والوں کے اعمال مثلا نماز ،روزہ،حج۔عمرہ اور زکواة وصدقات سب ضائع ہوجائیں گے۔ سودکا گناہ اتنا ہے کہ سرکاردوعالم علیہ الصلوة والسلام نے اس کو ماں کے ساتھ زنا کرنے سے بھی بدتر فعل قرار دیا ہے اس میںسود لینے والے کوہی تخصیص نہیں بلکہ سود لینے والا،سودی معاملہ کی کتاب کرنے والااور اس معاملہ کا گواہ بننے والاسب برابرہیں نیزان سب پر سرکار دوعالم ۖنے لعنت فرمائی ہے جیسا کہ صحیح حدیث ہے کہ ”رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت فرمائی سود کھانے والے اور سوددینے والے اورسودی معاملہ کو لکھنے والے اور اس کے گواہ بننے والوں پراور فرمایا سب برابر ہیں (صیحح مسلم)”لہٰذا تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ خود بھی اس لعنت سے بچیں اور دوسروں کو بھی بچانے کی کوشش کریں۔

Pakistan

Pakistan

پاکستان کے حکمران قوم کے نام پر سود پر قرضہ لے کرپوری قوم کوسودی نظام کی دلدل میں دھکیل چکے ہیں۔اگر اب بھی حکومت نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو انجام دنیا و آخرت میں تباہی و بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوگا۔بجلی و گیس کی لوڈشیڈنگ ہوعدلیہ یا فوج کے خلاف کسی قسم کی سازش ہو تو پوری قوم احتجاج کرنے لگ جاتی ہے لیکن افسوس کے ہمارے حکمران ہمیں اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جنگ میں بطور سپاہی استعمال کررہے ہیں اور ہم خاموشی سے اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جنگ کا حصہ بنے ہوئے ہیں۔

قارئین محترم راقم اس سے قبل بھی سود ی نظام سے ہونے والے بہت سے نقصانات پر بات کر چکا ہے لیکن قیام امن کا جو فامولا سید عرفان احمد شاہ صاحب نے ایک جملے میں بتا دیا اس سے انکار میرے تو کیا کسی کے بھی بس کی بات نہیں ۔،خاص طور پر کراچی میں قیام امن کے حوالے شاہ صاحب نے بتا یا کہ سودی نظام کے خاتمے کے ساتھ ساتھ حکومت سندھ اور اہل کراچی سمندر کو صاف ستھرا رکھیں تو بہت جلد امن قائم ہوجائے گا کیونکہ سمندر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے حکم سے تھمے ہوئے ہیں۔

قیام امن کا فامولا بہت سیدھا اور آسان ہے ۔اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف جنگ سے توبہ کرو اور دیکھو امن کتنی جلدی قائم ہوتا ہے۔۔اگر حکومت قیام امن کیلئے مخلص ہے تو پھر فوری طور پر مالیاتی ادارں سے سودی نظام ختم کرکے قرآن و سنت کا نظام رائج کیا جائے جس میں فلاح ہے جبکہ سود دنیا و آخرت کے خسارے کے سوا کچھ نہیں۔اب فیصلہ عوام کے ہاتھ میں ہے؟۔

Imtiaz Ali Shakir

Imtiaz Ali Shakir

تحریر: امتیاز علی شاکر:کاہنہ نولاہور
imtiazali470@gmail.com.
03154174470