تحریر : پروفیسر رفعت مظہر 14دسمبر کو اسلام آباد میں پارلیمنٹ کا ہنگامہ خیز اجلاس ہوا ۔ قائدِ حزبِ اختلاف سیّد خورشید شاہ کی تقریر کے بعد سپیکر صاحب نے پوائنٹ آف آرڈر پر وزیرِ ریلوے خواجہ سعد رفیق کو جواب دینے کے لیے کہا لیکن تحریکِ انصاف نے ، جو ایک دفعہ پھر یو ٹرن لے کر (کپتان صاحب کہتے ہیں کہ یہ یوٹرن نہیں ، حکمتِ عملی تھی) پارلیمنٹ میں براجماں تھی ، ہنگامہ کھڑا کر دیاکہ اُسے پہلے بولنے دیا جائے ۔ جب سپیکر صاحب نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو تحریکِ انصاف نے سپیکر کی کرسی کا گھیراؤ کر کے ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑ دیں اور ایک رُکن نے تو آئین کی کتاب کو بھی دور پھینک دیا ۔ ضیاء الحق یاد آئے جنہوں نے آئین کے بارے میں کہا تھا کہ اُن کے نزدیک آئین محض 100 صفحات کی بیکار کتاب ہے ۔ تحریکِ انصاف نے بھی ثابت کر دیا کہ اُس کے نزدیک حصولِ اقتدار ہی سب کچھ ہے ، آئین کی کوئی حیثیت نہیں ۔ جب ہنگامہ بڑھا تو سپیکر نے پندرہ منٹ کے لیے اجلاس ملتوی کر دیا لیکن جب پندرہ منٹ کے بعدبھی ہنگامہ ختم نہ ہوا تو اجلاس اگلے دِن تک کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ اچھا ہی ہوا وگرنہ اگر تحریکِ انصاف پارلیمنٹ کے اندر ہی دھرنا دے دیتی تو اُسے بھلا پارلیمنٹ سے کون نکال سکتا تھا۔ اجلاس کے بعد شاہ محمود قریشی نے بڑی بڑھکیں لگائیں اور یہ بھی کہہ دیا کہ وہ اجلاس کی کارروائی نہیں چلنے دیں گے۔
15 دسمبر کو باہمی افہام و تفہیم سے یہ طے ہوا کہ تحریکِ انصاف کے شاہ محمود قریشی پہلے بات کریں گے ۔ شاہ صاحب نے اپنی خطابت کے خوب جوہر دکھائے لیکن ہمیں ہنسی اِس بات پر آئی کہ وہ بار بار اخلاقیات کا دَرس دیتے نظر آئے ، گویا ” نَو سَو چوہے کھا کے بِلّی حج کو چلی”۔ سارا پاکستان اِس بات پہ نالاں ہے کہ تحریکِ انصاف کے چیئر مین عمران خاں سیاست میں غیرپارلیمانی الفاظ لے آئے ہیں ۔ اُن کے مُنہ میں جو کچھ آتا ہے ، بِلا جھجک کہہ جاتے ہیں ۔ بے شرم ، بے حیا اُن کا تکیہ کلام ہے اور دوسروں کو چور اور جھوٹے کہنا اُن کی عادت ۔ آج اُنہی کی جماعت کے وائس چیئرمین گلا پھاڑ پھاڑ کے چلا رہے تھے کہ خواجہ سعد رفیق نے اُن کو” غنڈے” کہا جس پر اُنہیں معافی مانگنی چاہیے ۔ وہ اپنے خطاب کے دَوران ہر دو، تین منٹ بعد لفظ غُنڈے کی گردان کرتے نظر آئے اور اُن کے ساتھ بیٹھی شیریں مزاری صاحبہ” اوئے اوئے” کے اوازے کَستی رہیں ۔ اگر شاہ محمود قریشی کی طویل تقریر کا لبِ لباب دیکھا جائے تو یہی لفظ ”غنڈہ” ہی تھا یا پھر سپیکر صاحب پر الزام تراشی۔ اُُنہوں نے اپنی پوری تقریر میں سپیکر صاحب کو اُن کا نام لے کر ہی پکارا اوراُنہیں نوازلیگ کا جیالا کہتے رہے۔
سبھی نے دیکھا کہ محترم ایاز صادق نے انتہائی دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے شاہ محمود کو اپنی تقریر جاری رکھنے پر مجبور کیے رکھا ۔ شاہ محمود قریشی ، جو ایوان کو مچھلی بازار بنانے کی ٹھان کر آئے تھے ، اُن کا کوئی بَس نہ چلنے دیا ۔ حالانکہ وہ ہر دو منٹ بعد ”پھڈّے” کی شعوری کوشش کرتے رہے اور شیریں مزاری جلتی پر تیل ڈالتی رہیں۔ خواجہ سعد رفیق نے اپنے خطاب کے آغاز ہی میں یہ وضاحت کر دی کہ اُنہوں نے غنڈے نہیں کہا بلکہ غنڈہ گردی کہا تھا جس پر وہ معذرت خواہ ہیں ۔ اُس کے بعدجب اُنہوں نے پوری تفصیل کے ساتھ تحریکِ انصاف کے اندازِ سیاست کی تشریح شروع کی تو شیریں مزاری نے بار بار اُنہیں ٹوکنا شروع کردیا۔ اُن کے اِس غیر پارلیمانی رویے پر خواجہ سعد رفیق نے ہاتھ جوڑ دیئے اور کہا ”بہن میں آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا”۔ یہ خواجگان بھی عجیب ہیں ، پہلے خواجہ آصف نے شیریں مزاری کے لیے غیر پارلیمانی الفاظ بولے اور اب خواجہ سعد رفیق نے اُنہیں ”باجی” ہی کہہ دیا۔ بھلا اپنے بالوں کو تین ،تین رنگ دینے والی محترمہ شیریں مزاری خواجہ سعد رفیق سے بھی بڑی عمر کی ہیں؟۔ یہ تو شیریں مزاری کی عالی ظرفی ہے کہ اُنہوں نے خواجہ سعد رفیق کو کچھ نہیں کہا ورنہ معافی تو اِس پہ بھی بنتی تھی۔
Mehmood Qureshi
جب شاہ محمود قریشی انتہائی جذباتی انداز میں خواجہ سعد رفیق سے معافی کا مطالبہ کر رہے تھے ، تب شیریں مزاری صاحبہ اُنہیں لقمے دے رہی تھیں کہ خواجہ آصف بھی معافی مانگے لیکن شاہ محمود قریشی نے اُن کی باتوں پر کان نہیں دھرا اور مطالبہ صرف خواجہ سعد رفیق کی معافی تک محدود رہا ۔ غالباََ زندگی میں پہلی مرتبہ خواجہ سعد رفیق نے اپنے آپ پر کنٹرول کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کا مطالبہ پورا کر دیا اور تحریکِ انصاف جو گھر سے ”کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے” کا فیصلہ کرکے پارلیمنٹ میں آئی تھی ، اُس کا سارا پلان ”ٹائیں ٹائیں فِش” ہو گیا۔ بہرحال بنی گالہ میں بیٹھے عمران خاں اپنے وائس چیئرمین کے دبنگ خطاب پر خوش تو ضرور ہو رہے ہوں گے لیکن جب نوازلیگ حالات کی نزاکت دیکھتے ہوئے ایک قدم پیچھے ہٹ گئی اور معاملہ افہام و تفہیم سے حل ہو گیا تو کپتان صاحب کو دُکھ بھی بہت ہوا ہو گا۔ وہ تو پہلے ہی اعلان کر چکے تھے کہ تحریکِ انصاف پارلیمنٹ میں ہنگامہ کرنے جا رہی ہے۔
ہماری یہ تحریکِ انصاف بھی عجیب سیاسی جماعت ہے ۔اُس کا اپنے صوبے کے ترقیاتی کاموں کی طرف مطلق دھیان نہیں۔ اِس لیے کہا جا سکتا ہے کہ یہ جماعت صرف دو جگہوں پر پائی جاتی ہے ، سڑکوں پر یا سوشل میڈیا پر۔ اگر اِس کے علاوہ یہ کہیں ہے تو ہمیںضرور مطلع کیا جائے۔ اگر وزیرِاعظم صاحب نے یہ کہا ہے ”خیبرپختونخوا میں حکومت نہ بنانے دیتے تو اِن کا اصل چہرہ کیسے دکھاتے” تو کچھ غلط بھی نہیں کہا۔ جمعرات 16 دسمبر کو وفاقی ایوان ہائے صنعت و تجارت کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِاعظم صاحب نے فرمایا کہ وہ گھبرانے والے نہیں ، ڈَٹ کر کٹھن حالات کا مقابلہ کریں گے۔ اُنہوں نے کہا”دھرنے والوں کو بے نقاب کرنے کے لیے خیبرپختونخوا میں حکومت نہیں بنائی۔ اگر تحریکِ انصاف کو خیبر پختونخوا میں حکومت نہ بنانے دیتے تو اِن کا اصل چہرہ کیسے دکھاتے ۔ دھرنوں میں قوم کا وقت ضائع کرنے والوں سے سوال پوچھنا عوام کا فرض ہے”۔ ہم تو پہلے ہی کہتے تھے کہ خیبرپختونخوا کی حکومت محض تحریکِ انصاف کو بے نقاب کرنے کے لیے دی گئی ہے۔
حقیقت یہی ہے کہ اگر نوازلیگ چاہتی تو مولانا فضل الرحمٰن ،آزاد اراکین اور ایک دو چھوٹی سیاسی جماعتوں سے مِل کرخیبرپختونخوامیں آسانی سے حکومت بنا سکتی تھی کیونکہ مرکز میں اُسے واضح اکثریت حاصل تھی اور چھوٹی سیاسی جماعتوں یا آزاد ممبران کا جھکاؤ ہمیشہ مرکز کی طرف ہی ہوتا ہے ۔ لیکن میاں صاحب نے ایساکیا نہ کرنے دیا، جس پر مولانا فضل الرحمٰن چیں بچیں بھی ہوئے ۔ وہ تو خیبرپختونخوا میں اپنا وزیرِاعلیٰ لانے کے چکر میں تھے اور اُنہی دنوں میں مولانا نے یہ بیان بھی دیا تھا کہ اصولاََ وزیرِاعلیٰ جمعیت علمائے اسلام کا ہونا چاہیے کیونکہ پختونخوا اسمبلی میں اُن کے اراکین کی تعداد نوازلیگ کے اراکین سے زیادہ ہے۔ اُدھر میاں نوازشریف صاحب کچھ اور ہی سوچ کے بیٹھے تھے ، وہی جس کا اظہار اُنہوں نے 15 دسمبر کو کر دیا۔ گویا یہ حبِ علی نہیں ، بغض معاویہ والا معاملہ تھا۔ کہا جا سکتا ہے کہ قوم کا ڈھیروں ڈھیر وقت ضائع کرنے میں کچھ حصّہ ہمارے وزیرِاعظم صاحب کا بھی ہے۔ اگر خیبر پختونخوا میں تحریکِ انصاف کی حکومت نہ بنتی تو اُنہیں کے پی کے کی صورت میں ایک مضبوط ٹھکانہ بھی میسر نہ آتا اور وہ بنی گالہ تک ہی محصور ہو کر رہ جاتے۔