ایتھوپیا (اصل میڈیا ڈیسک) دنیا بھر سے افریقی باشندوں نے افریقی یونین کو ایک کھلا خط تحریر کیا ہے، جس میں ایتھوپیا کی جنگ میں ثالثی پر زور دیا گیا ہے۔ تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ خونریزی اور ہجرت کے بحران کو روکنے کے لیے مداخلت ضروری ہے۔
اس خط کو تحریر کرنے کا ایک واضح مقصد ایتھوپیا کے متحارب فریقین پر دباؤ بڑھانا ہے تا کہ تیگرائے کے خونی تنازعے کا پرامن حل نکل سکے۔ کھلا خط تحریر کرنے والے افریقہ کے اس سنگین تنازعے کا مکمل خاتمہ چاہتے ہیں۔ درجنوں افریقی اسکالرز اور دنیا بھر سے انسانی حقوق کے سرگرم کارکن بھی دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں۔ اس خط میں مکالمت کو امن کے حصول کا مقصد بنانے کو بھی اہم قرار دیا گیا ہے۔
اس خط میں تحریر کیا گیا کہ اس تنازعے کی وجہ سے عام شہری مسلسل متاثر ہو رہے ہیں اور جوں جوں اس میں طوالت پیدا ہو رہی ہے توں توں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔
اس خط کے ایک دستخط کنندہ پروفیسر محمد دیوف ہیں، جن کا تعلق کولمبیا یونیورسٹی کے شعبہ افریقن اسٹڈیز سے ہے، انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس تنازعے کا حل نہیں نکالا گیا تو یہ اس کا مطلب افریقہ کی مجموعی ناکامی ہو گی۔
اس خط کے ذریعے ‘ایک افریقہ‘ کا مطالبہ کرتے ہوئے بیان کیا گیا کہ ایتھوپیا میں جنگی حالات اب نویں مہینے میں داخل ہو گئے ہیں اور ابھی تک اس تنازعے کا حل دور دور تک دکھائی نہیں دے رہا جو یقینی طور پر افسوس ناک صورتحال ہے۔
کینیا کے انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ برائے اسٹریٹیجک اسٹڈیز کے اسکالر حسان خانیجی کا کہنا ہے کہ اس تنازعے کی وجہ سے سارا براعظم منقسم ہو کر رہ گیا ہے اور کھل کر کوئی بھی ایتھوپیا پر تنقید نہیں کر رہا۔
آبادی کے لحاظ سے ایتھوپیا افریقی براعظم کا دوسرا بڑا ملک ہے اور افریقی یونین کا صدر دفتر اس کے دارالحکومت ادیس آبابا میں واقع ہے۔
ایک تجزیہ کار کا کہنا ہے قرن افریقہ میں ایتھوپیا ایک اہم ملک ہے اور اس میں عدم استحکام کے وسیع تر منفی نتائج برآمد ہو سکتے ہیں اور سارا براعظم بے چینی کا شکار بھی ہو سکتا ہے۔
یہ صورت حال اس کے ہمسایہ ممالک صومالیہ اور کینیا کے لیے بھی پریشان کن ہو سکتی ہے کیونکہ صومالیہ میں دہشت پسند گروپ الشباب کی مسلح کارروائیاں جاری ہیں اور کینیا میں بھی بارہا دہشت گردانہ حملے کیے گئے ہیں۔ایتھوپیا پہلے ہی صومالیہ سے اپنی فوجی واپس طلب کر چکا ہے۔
کینیا میں صومالی مہاجرین کی ایک بہت بڑی تعداد کیمپوں میں مقیم ہے۔ حسان خانیجی کا کہنا ہے کہ اگر تیگرائے کا تنازعہ طول پکڑتا ہے اور اس کا انجام علیحدگی پر ہوتا ہے تو ایتھوپیا کی تقسیم سارے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر دے گی اور دنیا کو مہاجرین کے انتہائی بڑے بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ایتھوپیا کے وزیر اعظم آبی احمد نے ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے تنازعے کے حل کے لیے مدد طلب کی ہے۔ ترک صدر بھی افریقہ میں اثر و رسوخ کے تناظر میں ایتھوپیا کو ایک اہم ملک قرار دیتے ہیں۔ ایک ریسرچر مائیکل تناخم کا کہنا ہے کہ ترکی مشرقی افریقی ممالک کینیا اور یوگینڈا تک بھی رسائی کا متمنی ہے اور اس مقصد کے لیے بھی ایتھوپیا اہم راستہ ہے۔
تناخم کا مزید کہنا ہے کہ انقرہ پہلے سے صومالیہ اور ایتھوپیا کے ساتھ سکیورٹی تعلقات استوار کیے ہوئے ہے اور قرن افریقہ میں پہلے سے اثر و رسوخ قائم کرنے والے دو ممالک یعنی متحدہ عرب امارات اور مصر کو باہر دھکیلنا چاہتا ہے۔
تیگرائے تنازعے کی وجہ سے ایتھوپیا اور سوڈان کے تعلقات بھی خراب ہو رہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ تو تیگرائے کے مہاجرین کا سوڈان میں داخل ہونا ہے۔ یہ مہاجرین وہاں معاشرتی اور معاشی بوجھ بن رہے ہیں جب کہ دوسری وجہ ادیس آبابا کا دریائے نیل پر ایک بڑا ڈیم تعمیر کرنے کا منصوبہ ہے۔
متحارب فریقین امن کی جانب راغب نہیں گزشتہ ہفتے افریقی یونین نے نائجیریا کے سابق صدرالوسیگن اوباسانجو کو اس تنازعے کو حل کرنے کا فریضہ سونپا ہے۔ بطور مصالحت کار انہیں فریقین کے معروضات سننی ہوں گی اور کوئی بیچ کا راستہ اپنانا ہو گا لیکن ان کی کامیابی کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس تنازعے کو حل کرنے میں کچھ دیگر افریقی ممالک بھی مصروف ہیں۔
تیگرائے تنازعے کا ایک فریق لبریشن فرنٹ (TPLF) ہے اور اس نے افریقی یونین کو جانبدار قرار دے رکھا ہے کہ یونین کی ہمدردیاں ایتھوپیا کے ساتھ ہیں۔ دوسری جانب ایتھوپائی وزیر اعظم آبی احمد تیگرائے کے لیڈروں سے بات چیت کرنے کو مسترد کر چکے ہیں۔ احمد کے مطابق تیگرائے کا مسئلہ ‘لا اینڈ آرڈر‘ کا ہے اور ایک داخلی معاملہ ہے۔