ایتھوپیا (اصل میڈیا ڈیسک) ایتھوپیا کے دور دراز کے شمالی علاقے تیغرانیا میں جنگی حالات پیدا ہوچکے ہیں۔ اس علاقے کے شہری ہمسایہ ملک سوڈان میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔
افریقی ملک ایتھوپیا کی فوج شمالی علاقے تیغرانیا (انگلش میں سرکاری نام ٹیگرانیا یا ٹیگرے)میں ممکنہ علیحدگی پسندی کی تحریک کے خاتمے کی فوجی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس فوجی ایکشن میں ملکی فوج کو جنگی طیاروں کی مدد بھی حاصل ہے۔ بمباری اور شیلنگ سے بچنے کے لیے ٹیگرے (Tigray) کے ہزاروں شہری ہمسایہ ملک سوڈان میں مسلسل داخل ہو رہے ہیں۔ عالمی امدادی اداروں کا کہنا ہے کہ اس بحران سے دو لاکھ سے زائد افراد کو مہاجرت و بے گھری کا سامنا ہو سکتا ہے۔k
مہاجرت اختیار کرنے والے افراد کا کہنا ہے کہ ان کے علاقے کے مختلف شہروں اور قصبوں میں جنگ کی حالت پیدا ہے۔ ملکی حکومت کی فوج گلیوں اور بڑی سڑکوں پر باغیوں کے ساتھ ساتھ عام لوگوں پر بھی فائرنگ جاری رکھے ہوئے ہیں اور ان کی بھرپور مدد جنگی طیاروں سے بم پھینک کر کی جا رہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوجی اہلکار بڑی جسامت کی چھریاں (ماشیٹے) بھی لوگوں کو مارنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ بمباری سے عمارتیں اور مکانات تباہی سے دوچار ہو رہے ہیں۔ A9 ایتھوپیا کا ہمسایہ ملک سوڈان اس وقت تیغرانیا یا ٹیگرے کے مہاجرین کا قریب ترین ٹھکانہ بن گیا ہے۔ اس کی ایک سرحدی قصبے الفشقہ میں سات ہزار سے زائد تیغرانی باشندے گھر بار چھوڑ کر اپنی جان بچا کر پہنچ گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ریفیوجی ایجنسی نے مہاجرین کی تعداد ساڑھے چودہ ہزار بتائی ہے۔ ان مہاجرین کا کہنا ہے کہ تیغرانیا میں جنگ کا دائرہ مسلسل وسیع ہوتا جا رہا ہے۔ ایتھوپیا کی فوج تیغرانی باغیوں اور ان کے مددگار قبائلی سرداروں کے جتھوں میں شدید لڑائی جاری ہے۔ باغیوں کا تعلق تیغرانی محاذَ آزادی (TPLF) سے ہے۔ ایک مہاجر نے الفشقہ میں نیوز ایجنسی روئٹرز کے نمائندے کو بتایا کہ اس لڑائی میں بے شمار شہری بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔yt
ایتھوپیا کے وزیر اعظم ابھی احمد کا کہنا ہے کہ حکومتی جنگی طیارے صرف باغیوں اور ان کے حامیوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ احمد کے مطابق بمباری کا مقصد باغیوں کے اسلحے کے گوداموں اور جنگی سامان کے ذخیروں کو تباہ کرنا ہے۔ تیغرانیا میں ایتھوپیا کی فوج رواں مہینے نومبر میں باغیوں کی سرکوبی کے لیے داخل ہوئی ہے۔ اس فوج کشی کا فیصلہ وزیر اعظم نے کیا ہے۔ تیغرانی باغیوں کی تعداد ڈھائی لاکھ کے لگ بھگ ہے۔
براعظم افریقہ میں ہجرت پر مجبور اور بے دخل کیے جانے والوں کی مجموعی تعداد تیس ملین سے زائد بنتی ہے۔ ان میں پناہ گزین، داخلی طور پر گھر بار چھوڑنے والے اور واپس لوٹنے والے بھی شامل ہیں۔ یہ تعداد مسلسل بڑھ رہی ہے۔ جنوبی سوڈان سے تعلق رکھنے والا یہ بچہ بھی انہی میں سے ایک ہے۔ اپنے دیگر ہم وطنوں کی طرح اس نے یوگینڈا میں پناہ لے رکھی ہے۔
دوسری جانب باغیوں کی مرکزی تنظیم کے سربراہ دیبریستیوں گیبرمیشل نے ایتھوپیا اور اریٹیریا پر الزام بھی لگایا گیا ہے کہ اس لڑائی میں دونوں اکھٹے ہیں اور اریٹیریا کی فوج بھی ایتھوپین فوج کے ہمراہ تیغرانی علاقے میں کیے جانے والی لڑائی میں شریک ہے۔ اریٹیریا کے وزیرِ خارجہ عثمان صالح محمد نے واضح کیا ہے کہ اس تنازعے سے اریٹیریا کا قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے۔ اُدہر دارالحکومت ادیس آبابا سے وزارتِ خارجہ اور دیگر حکومتی حلقے اس کی تردید کرتے ہیں۔