ایتھوپیا (اصل میڈیا ڈیسک) اقوام متحدہ کے مطابق شمالی ایتھوپیا میں تیگرائے کے علیحدگی پسندوں اور ان کے خلاف فوجی کارروائی نے علاقے میں شدید بحرانی صورت حال پیدا کر رکھی ہے۔
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ ایتھوپیا میں تیگرائے تنازعے نے ملک کے شمالی حصے میں عام افراد کی زندگیوں کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ عالمی ادارے کے مطابق شمالی ایتھوپیا میں خوراک کے گوداموں کو لوٹنے کے بعد اس حصے میں کھانے پینے کے سامان کی شدید قلت پیدا ہونے کا قوی امکان ہے۔
یہ بھی واضح کیا گیا کہ شمالی ایتھوپیا میں چورانوے لاکھ افراد کو کھانے پینے کی امداد کی اشد ضرورت ہے۔ دوسری جانب تیگرائے تنازعے کی شدت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔
تیگرائے میں انسانی المیے کی شدت ایتھوپیا کے تیگرائے علاقے میں انسانی بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ اس علاقے میں باون لاکھ افراد کو امداد کی ضرورت ہے۔ ان کے علاوہ آفار میں پانچ لاکھ چونتیس ہزار اور امہارا میں تینتیس لاکھ افراد امداد کے منتظر ہیں۔ آفار اور امہارا کے علاقے تیگرائے کے نزدیک واقع ہیں اور مسلح تنازعے نے ان میں بھی معمولات زندگی کو شدید متاثر کر رکھا ہے۔
ابھی تک امداد کے منتظر ان افراد کے لیے امدادی سامان کی ترسیل کی کوئی صورت سامنے نہیں آئی ہے۔ اقوام متحدہ نے بدھ آٹھ دسمبر کو امدادی خوراک کی تقسیم کا سلسلہ موقوف کر دیا تھا کیونکہ مسلح افراد نے شمالی ایتھوپیائی قصبے کومبولچا میں خوراک اور ضروری اشیا کے ایک بڑے گودام کو لوٹ لیا تھا۔
اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفنی دوجارک کے مطابق کومبولچا کے گودام کو لوٹنے میں تیگرائے علیحدگی پسندوں کے ساتھ چند مقامی افراد بھی شامل تھے۔ دوجارک کے مطابق لٹیرے گودام سے بچوں کی کم خوراکی کی اشیا اور ادویات بھی چوری کر کے لے گئے ہیں۔
متحارب فریقین اور انسانی امداد کی کوششیں افریقی ملک گھانا کے دارالحکومت عکرہ میں فارن پالیسی اور سکیورٹی امور کے تجزیہ کار ادیب سعنی کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ کی انسانی بحران سے نمٹنے کی کوششیں افراتفری اور انتشار کی کیفیت میں کامیاب نہیں ہو رہی کیونکہ متحارب فریقین سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ سعنی کے مطابق ان کی مسلح کارروائیوں کی وجہ سے انسانی بحران گہرا ہوتا جا رہا ہے اور یہ ایک دوسرے کو اس صورت حال کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔
تجزیہ کار ادیب سعنی نے واضح کیا کہ مسلح صورت حال میں کمی سامنے نہیں آئی ہے اور عام انسان کے لیے حالات بتدریج مشکل ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ حالات امدادی کارروائیوں کو جاری رکھنے کے لیے سازگار نہیں رہے اور شدید متاثرہ افراد تک بھی امدادی سامان نہیں پہنچ رہا۔
شمالی ایتھوپیا میں حکومتی فوج اور تیگرائے علیحدگی پسندوں کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ گزشتہ ایک سال سے جاری ہے۔ ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ بیس لاکھ سے زائد افراد بے گھری کا شکار ہیں۔ اقوام متحدہ کے مبصرین نے فریقین پر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات بھی عائد کیے ہیں۔
تنازعے کے حل کی عالمی کوششیں انٹرنیشنل کمیونٹی بھی اس بحران کو حل کرنے کے لیے متحرک ہے۔ امریکی وزارتِ خارجہ کی ترجمان کا کہنا ہے کہ ایتھوپیا میں انسانی بحران کی شدت تباہ کن ہو چکی ہے اور یہ امریکا کے لیے ایک ترجیحی معاملہ ہے۔ امریکا نے بھی متحارب فریقین کو مذاکراتی عمل کے ذریعے اختلافی معاملات کو حل کرنے کی تلقین کی ہے۔
گھانا کے تجزیہ کار ادیب سعنی کا کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ جرمنی اور دوسرے ممالک کو بھی اس تنازعاتی صورت حال میں اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنا چاہیے تا کہ انسانی بحران میں کمی اور لوگوں کے مشکل حالات میں بہتری پیدا ہو سکے۔ سعنی کے مطابق تیگرائے کا تنازعہ یقینی طور پر بین الاقوامی کوششوں سے ہی حل ہو سکتا ہے کیونکہ متحارب فریقین کو ایتھوپیا کے باہر سے امداد و حمایت حاصل ہے۔