تحریر : شیخ خالد ذاہد دہشت گردی پاکستان اور پاکستانیوں کیلئے کسی دلدل کی مانند واقع ہوتی چلی گئی۔ جن جن ممالک کو اپنے اسلحے اور اپنی عسکری ماہرین کی صلاحیتوں پر بہت مان تھا سب نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کودنے کا فیصلہ کیا۔ مان تو ہمیں بھی ہے اور تھا مگر ہمیں اس جنگ میں اس آگ اور خون کے کھیل میں دھکیلا گیا اور دھکیل دھکیل کے سب سے آگے لاکر کھڑا کر دیا گیا ہے۔ آگے کھڑے ہونا کسے اچھا نہیں لگتا ہمیں بھی بہت اچھا لگا اور وقت کے حکمرانوں نے بھی “واہ واہ” کے تعریفی کلمات ساری دنیا سے سنے، پھر کچھ یوں ہوا کہ واہ واہ تو ہوتی رہی مگر ہمارا قیمتی جانی و مالی نقصان روز بروز بڑھتا چلا گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کے ہم نے جن دہشت گردوں سے لڑنا اور انہیں اپنے وطن سے نکالنے کا عزم کر رکھا تھا وہ ملک کے کچھ خاص علاقوں میں مضبوط ہوتے چلے گئے اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ افواجِ پاکستان کو اپنے ہی ملک میں یکہ بعد دیگرے آپریشنز کرنے پڑگئے جو ملکی سالمیت کیلئے خطرہ بننے لگے۔ پاکستان کو دہشت گردی کا سامنا بظاہر تو اندرونی طاقتوں سے نظر آرہا تھا مگر وقت کہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اور ہمارے خفیہ اداروں کی کوششوں سے جو باتیں سامنے آنا شروع ہوئیں ان میں یہ چیز نمایاں سمجھ میں آتی ہے کہ “اسلامائزیشن” کا نعرہ لگوا کر ہمارے پڑوسی ممالک ہمیں کمزور کرنے کی بھرپور کوششیں کرنے میں مصروف ہیں۔ لیکن ہمارے دشمنون کو یہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔
دشمن کو اپنا سارا کھیل دوبارہ سے ترتیب دینا پڑا یا پھر دوسرا “آپشن” استعمال کرنا پڑا۔ دشمن جو ہماری آزادی سے اس جدوجہد میں اپنی ساری توانائیاں صرف کر رہا تھا کہ پاکستان کو “لاسانیت” کی آگ میں جھونک دیں دیا جائے گا اور ہمارا بزدل دشمن اپنے اس عزم میں کامیاب بھی ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ جسکی اعلی ترین مثال بلوچستان میں باغی گروپ کی نشاندہی ہونا اور ان کی موجودگی کا ثابت ہونا، کراچی سے “را” کہ اہکاروں کی گرفتاری کا عمل میں آنا اور بات یہاں آکے ختم نہیں ہوجاتی خیبر پختون خواہ سے زبان کی بنیاد پر افغانستان سے مشابہت رکھنے کی باتیں اور اس طرح کی بہت ساری مثالیں ہمارے لئے کھلی دلیلیں ہیں کہ ہمیں لسانیت کی بنیاد پر تقسیم کرنے کی اور ہمارے درمیان نفرت کا بیج بونے کی بھرپور سازیشیں ہوتی رہی ہیں۔ مگر پاکستانی قوم کو “سلام” پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے ہر طرح کی سازش کو اپنے قومی اتحاد اور بھائی چارے سے دشمن کے ناپاک عزائم کو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دیا۔اگر غور کریں تو مشرقی پاکستان (بنگلادیش) بھی ایسی ہی سازشوں کی وجہ سے عمل میں آیا، مگر اسکے بعد ہم پاکستانیوں نے ہر قسم کی سازشوں سے کا مقابلہ بہت تدبر سے کیا اور کرتے جا رہے ہیں۔
پاکستان مختلف بولنے والوں کا ملک ہے مگر ہم اردو زبان اور اسلام کی گرہوں سے ایسے بندھے ہوئے ہیں جسے کبھی کھولنے یا توڑنے کی کوشش کرنے والا یا والے منہ کی کھا کر رہ جاتےرہے ہیں۔ پاکستانیوں کا اتحاد برقرار رکھنے میں جہاں اسلامی بھائی چارے اور اردو زبان نے اپنا کردار ادا کیا ہے تو دوسری طرف “کرکٹ اور دیگر رونما ہونے والے حادثات” نے انتہائی اہم کردار ادا کیا (جو ہوتے بھی تواتر سے رہتے ہیں)۔ پاکستانی قوم کرکٹ کو لے کر ایسی یکتائی کا مظاہرہ کرتی ہے جو کہ ناقابلِ بیان ہے (اسکا تازہ ترین مظہر پاکستان سپر لیگ کا فائنل ہے) اور جب کبھی ہمارے پاکستانی بھائی کسی حادثے (زلزے یا سیلاب وغیرہ) کی ذد میں آتے ہیں تو ایک ایک پاکستانی مشکل کی گھڑی سے نکلنے میں اپنے ہم وطنوں کیلئے ایک آواز ، ایک جان اور ایک زنجیر بن جاتے ہیں اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتے جب تک وہ وقت بدل نہیں جاتا۔ ہم پاکستانیوں کے اس عمل سے دشمن کہ نامعلوم منصوبے ناکام ہوچکے ہیں اور یقیناً اسے اپنے گھناؤنے اقدام پر خود بھی شرمندگی ہوتی ہوگی کیونکہ ہم پاکستانیوں کا اتحاد و یگانگت کسی کو ہضم نہیں ہوتی۔
ابھی پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف ملک گیر آپریشن شروع کیا ہے اور جسے “ردالفساد” کا نام دیا گیاہے۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی قیمتی جانوں کا نذرانہ دے دے کر پاکستانی قوم کو اس بات کا احساس کرواتے ہیں کہ “ہم ایک قوم ہیں” کسی بھی زبان بولنے والے کی قربانی کسی مخصوص علاقے کیلئے نہیں ہے بلکہ یہ قربانی پاک سرزمین پاکستان کیلئے ہے۔ کچھ لوگوں نے ایک بار پھر لسانیت کے بجھے ہوئے شعلے کو ہوا دینی شروع کی ہے کہ موجودہ آپریشن ایک خاص زبان بولنے والوں کے کیخلاف کیا جا رہا ہے جو کہ یقیناً غلط ہے۔ اگر ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے اسی طرح علاقائی اور مختلف زبان بولنے والوں کے خلاف کاروائیاں کرنے لگینگے تو پھر سب سے پہلے یہ ادارے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائینگے اور نظم و ضبط کہ تمام بند ٹوٹ جائینگے۔ یہی تو ہمارے دشمن کا ہتھیار ہے کبھی وہ بلوچوں کو اکساتا ہے کہ انکے خلاف کاروائی ہورہی ہے، کبھی وہ مہاجروں کو اکساتا ہے اور اب باری ہمارے پشتون بھائیوں کی آگئی ہے۔ ہمارا دشمن لسانیت کی پرورش کرکے اس کی بدولت ہمارے ملک کو مزید تقسیم کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے وہ یہ بھول گیا کے جسطرح بلوچوں اور مہاجروں نے ان سازشوں کو بے نقاب کیا اور اس کی بھرپور مذمت کی۔
ملک دشمن عناصر نے لسانیت کا بیج بویا اور ہم ہی لوگوں میں سے اس کی نشونما اور پرورش کرنے والے چن لئے ، دشمن کی سازشیں رنگ لائیں اور لسانیت کی بنیاد پر ہی مشرقی پاکستان ہم سے جدا کردیا گیا۔ مگر اب قدرت کا فیصلہ کچھ اور ہے اور وہ یہ ہے کہ پاکستان کی سالمیت اور بقاء کے دفاع کیلئے یہ قوم کسی نا کسی بہانے سے ایک کردی جاتی ہے۔ بس دکھ اس بات کا ہے ہمیں ایک کرنے کیلئے کسی حادثے اور کرکٹ کی ضرورت پڑتی ہے اور ہمارے اتحاد کو ہر شرط سے آزادی کب ملے گی اور ہم کب اس پودے کی پرورش سے ہاتھ اٹھائینگے بلکہ جڑ سے نکال پھیکینگے۔ انشاءاللہ اب ہم پاکستانی بن کر نا صرف پاکستان سے دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے میں اپنے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد کرینگے بلکہ ملک سے کرپشن جیسے ناسور سے بھی جان چھڑانے کیلئے ایک ہو کھڑے ہو جائینگے۔