تحریر : خالد زاہد
تاریخ گواہی دے گی کے آج دنیا میں جتنی نفسا نفسی ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ معاشرتی اقدار کا جنازہ نکلا ہوا ہے ہر شخص “سیلفیاں” بنا رہا ہے، تھوڑا سہی پر فاسٹ فوڈ پرگزارا کر رہا ہے۔ چھوٹوں اور بڑوں کے درمیان ایک محدود تعلق ہوا کرتا تھا اب وہ لامحدود ہوچکا ہے۔ آج چھوٹے بڑوں کو زمانے کیساتھ چلنے کے ڈھنگ سیکھا رہے ہیں۔ دراصل باقی دنیا بہت پہلے سے بدل رہی تھی اور ہم پی ٹی وی کے دور میں رہ رہے تھے اب نئی نسل اس “دیر” کا بدلہ پرانی نسل سے اسطرح لے رہی ہے۔ پھراچانک سے میڈیا کو آزادی دی گئی اور جیسے میڈیا کی دنیا میں انقلاب آگیا لوگ تو پہلے ہی پی ٹی وی سے اکتائے ہوئے تھے انہیں تفریح کا اتنا سارا سامان ایک ساتھ میسر آئے گا انہوں نے تو کبھی سوچا نہیں تھا۔ یعنی ایک دم سے بڑے ہونے کا موقع مل گیا جیسے کوئی لڑکا وقت سے پہلے بڑے ہونے کے شوق میں “شیو” کرنا شروع کر دیتا ہے ہمارے میڈیا ہاؤسز نے بھی کچھ ایسے ہی کارنامے کر دیکھائے۔
جب میڈیا کو آزادی نہیں تھی اور بہت محدود معلومات کے ذرائع تھے تو بہت سارے لوگ اپنی مرضی سے اپنے اختیارات کا استعمال کر رہے تھے۔ نجی جیلیں بھی تھیں، ہیروئن اور چرس کے اڈے بھی تھے، انسانی اسمگلنگ تب بھی ہوا کرتی تھی، ڈرایا دھمکایا جب بھی جاتا تھا، بھتے جب بھی لئے جاتے تھے، جوئے کے اڈے تب بھی تھے، قربانی کی کھالیں تب بھی جمع کی جاتی تھیں، زکوۃ کیلئے اس وقت بھی گھر گھر کا دروازہ کھٹکٹایا جاتا تھا، بے حیائی جب بھی تھی، مدرسے جب بھی تھے مگر بہت محدود ذرائع ہونے کی وجہ سے ان تمام کاموں کی پشت پناہی کرنے والے بہت طاقتور لوگ ہوا کرتے تھے۔ ایسا نہیں کے اب یہ کام بند ہوگئے ہیں یا نہیں ہو رہے، آج بھی یہ سارے کام جاری و ساری ہیں مگر آج یہ کام کہاں ہو رہا ہے اور کون ان کاموں کی پشت پناہی کر رہا ہے سب کا سب کسی بھی فرد سے معلوم کر کے دیکھ لیں اسے پتہ ہوگا۔
اس ترقی کی مرہونِ منت جو بہت نمایاں فرق آیا ہے وہ یہی ہے ۔ آج ہر غلط کام پر بھرپور طریقے سے تنقید بھی کی جاتی ہے اور اسے سماجی میڈیا پر گھسیٹا بھی جاتا ہے مگر افسوس آج بھی پشت پناہی کرنے والے بہت مضبوط لوگ ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا مقصد کل بھی ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنا تھا اور وہ آج بھی اپنے مشن پر کاربند ہیں، افسوس اس بات کا ہے کے یہ کل بھی شاد آباد تھے اور یہ آج بھی شاد آباد ہں۔
ترقی کا نا رکنے والا سفر جاری ہے مگر کیا ہماری اس ترقی نے ہماری ذہنی نشونما بھی کی کیا ہمارے افکار میں ہماری سوچ میں تبدیلی لائی، کیا ہم نے اپنے اندر سے تعصب جیسے ناسور کو نکالنے کیلئے کچھ سوچ بچار کیا؟۔ ان تمام سوالوں کے جواب میں ایک لفظ “نہیں” سننے کو ملےگا۔ ترقی دوسری طرف یعنی مادی ترقی اور ہماری نسلی خامیاں نسل در نسل منتقل ہوتی چلی جارہی ہیں۔ پاکستان میں بسنے والی قومیتیں اپنی زبانوں سے جانی جاتی ہیں اسی بنیاد پر صوبوں کے نام رکھ دیئے گئے ہیں۔ سندھی زبان بولنے والا آج بھی سندھی کہلوانے میں فخر محسوس کرتا اور اس بات کا اعلان کرتا ہے اسی طرح ہمارے ملک میں بسنے والی دوسری قومیتیں بھی اپنی اپنی زبانوں کی بنیاد پر پہچانے جانے پر فخر محسوس کرتی ہیں، کیا یہ درست ہے؟ کیا یہ بھی ترقی کا حصہ ہے؟۔ یہاں پاکستانی بعد میں پہلے سندھی، بلوچی، پشتو، سرائیکی اور پنجابی ہیں۔ ہر زبان بولنے والے کا یہ اخلاقی اور سماجی حق ہے کے وہ اپنی زبان کی ترویج کرے اور اس زبان سے وابسطہ ثقافت کا اظہار کرے اور اس کی ترقی اور ترویج کیلئے کام کرے۔
اس اظہار پر کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہونی چاہئے۔ مذکورہ زبانوں کے علاوہ اور زبانیں بھی پاکستان کی خوبصورتی میں چار چاند لگاتی ہیں۔ آپ یہ مضمون جس رسم الخط میں پڑھ رہے ہیں اس زبان کو “اردو” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اردو زبان کو پاکستان کی قومی زبان ہونے کا شرف بھی حاصل ہے مگر افسوس 70 سال گزرجانے کے بعد بھی یہ اپنا قومی ہونے کا حق ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔ یعنی آج بھی اس زبان کو قومی زبان کی حیثیت نہیں مل سکی جبکہ اب اعلی عدلیہ نے اس زبان کے نفاذ کیلئے باضابطہ طور پر احکامات جاری کر رکھے ہیں عرصہ دراز سے ایک مسلئہ حل ہونے کا نام نہیں لے رہا، دوسری طرف ترقی رکنے کا نام نہیں لے رہی، ایپل نے آئی 7 اور سامسنگ نے ایس 7 متعارف کروادیا۔ کراچی میں رہنے والے مقامی لوگوں کی مادری زبان “اردو” ہے اور ان میں اکثریت ان لوگوکی ہے جو 1947 میں انڈیا سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے، یہ اپنا سب کچھ ہندوستان میں چھوڑ چھاڑ پاکستان آگئے اور انہیں “مہاجر” کہا جاتا ہے۔
ہجرت کی دوقسمیں ہیں ایک کل وقتی یعنی ملکی سرحدوں سے باہر کی طرف جانا اور دوسری جزوقتی یعنی ملک کی سرحدوں کے اندر ہی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا۔ ترقی کے اس دور میں جب ترقی اپنی راہ پر سبک رفتار چلے جا رہی ہے ۔ ایک ہجرت ہمارے باپ دادا نے عرضِ پاک کی آزادی کی صورت میں کی دوسری ہجرت وہ ہے جو افغانیوں نے کی یا سوات یا دیگر قبائیلیوں نے کی۔ آج دنیا کو جہاں بہت سارے بین الاقوامی مسائل کا سامنا ہے وہیں مہاجرین کا مسلئہ بھی بہت اہمیت اختیار کئے ہوئے ہے۔ ہمیں بہت اچھی طرح پتہ ہے کے ہجرت کی پہلی قسم میں واپسی کا کوئی راستہ نہیں کیونکہ “سب کشتیاں جلا کر آئے ہیں” جبکہ دوسری ہجرت جز وقتی ہوتی ہے جیسے جیسے ہجرت کرنے والوں کے آبائی علاقے رہنے کے قابل کردئے جاتے ہیں یا پر امن ہونا شروع ہوجاتے ہیں، عارضی کیمپوں میں رہنے والے مہاجرین اپنی ہجرت ختم کر کے واپس اپنےگھروں کو لوٹ جاتے ہیں۔ انکی کوئی نا کوئی قومیت ہے جس سے یہ جانے جاتے ہیں جیسے افغانی ہیں اور پشتون ہیں۔ ہم نے پاکستان میں آنکھ کھولی اور اسی معاشرے میں پرورش پائی ہے یہاں کیوں ایک دوسرے سے پوچھاجاتا ہے کے آپ کون ہو (یعنی آپ کی قومیت کیا ہے)۔ کیا پاکستان 70 سال گزر جانے کے بعد بھی ہم پاکستانی نہیں بن سکے یا یہ مسلئہ صرف اردو بولنے والوں کے ساتھ ہے؟
ہجرت کرنے والا مہاجر ہی کہلاتا ہے، ہمارے دادا اور والد نے انڈیا سے ہجرت کی وہ مہاجر تھے، اب اس دارِفانی سے کوچ کر چکے، اب میں اپنی پہچان سوائے پاکستانی کے کچھ اور تو بتا ہی نہیں سکتا اور اگر دیکھا جائے تو مہاجر کوئی شناخت تو نا ہوئی۔ اگر کوئی کہتا ہے کے مہاجر ہوں تو اسکا مطلب یہ لیا جائے کے یہ جہاں ہے وہاں عارضی طور پر ہے اس کا آبائی وطن کوئی اور ہے۔ میں مہاجر کیسے ہو سکتا ہوں میں نے پاکستان میں آنکھ کھولی ہے میری قومیت تو پاکستانی ہوئی۔ اب یہ بتائیں کیامہاجر قوم ہوسکتی ہے یا مہاجر قومیت ہوسکتی ہے؟ مہاجر تو صرف وہی ہو سکتا ہے جس نے طبعی طور پر ہجرت کی ہو؟ تو پھر اس کی نسل کس قومیت سے جانی جائے گی (ہم اپنے آپ کو ہندوستانی نہیں کہلوانا چاہتے)۔
پاکستان میں رہنے والا ہر فرد جس کا قومی شناختی کارڈ ہے وہ پاکیستانی کیوں نہیں ہے کیوں یہ سوال کیا جاتا ہے کے آپ کون ہو۔ ویسے تو سب کے پاس جواب ہیں مگر کراچی میں رہنے والے اردو بولنے والے اپنے آپ کو مہاجر نہیں کہہ سکتے یہ پاکستانی ہیں اگر یہ پاکستانی ہیں تو باقی زبانیں بولنے والے کون ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کے آپ سندھ میں رہتے ہو تو سندھی ہوئے۔ کیا جو پنجابی بلوچستان میں رہتے ہیں وہ بلوچی کہلوانا پسند کرینگے۔ کراچی میں رہنے والے دیگر زبانیں بولنے والے اپنے آپ کو مہاجر کہلوانا پسند کرینگے۔ ہمیں اس قسم کے تمام سوالات اپنے ذہنوں سے حذف کرنا ہونگے اور خصوصی طور پر اپنی آنے والی نسلوں کو صرف پاکستانیت کا درس دینا ہوگا۔ اردو بولنے والوں کو ملک کے دیگر شہروں میں تعلیم کے مواقع فراہم کئے جائیں انہیں دیگر شہروں میں نوکریاں دی جائیں، یعنی انہیں ملک کی باگ دوڑ چلانے والوں میں شامل کیا جائے۔ ہر وہ اقدام کیا جائے جس سے انکا احساسِ محرومی ختم ہوسکے۔
کراچی نے ہمیشہ پاکستانیت کی بات کی ہے، ہم بانیانِ پاکستان کی اولاد ہیں ہمارے آباؤاجداد نے پاکستان کیلئے قربانیاں دی ہیں اور ہمیں پاکستان سے محبت کرنے کا درس دیا ہے، ہم تو بلا اشتراکِ قومیت صرف پاکستانی ہیں باقی سب کے پاس پہلے سے اپنی اپنی شناخت ہے فیصلہ انہیں کرنا ہے کے وہ کتنے پاکستانی ہیں۔ اردو سے یا اردو بولنے والوں سے ستیلاپن اب ختم ہونا چاہئے کیونکہ ہم سب پاکستانی ہیں۔ اس میں کوئی شک شبہ نہیں ہے کے دشمن اتنی خوبصورتی سے اپنی چالیں چلتا ہے کے ہمیں انکا احساس بھی نہیں ہوتا۔ ہماری صفوں میں خلاء آجاتا ہے جس کی بدولت لوگ ہمارے درمیان دیواریں چن دیتے ہیں اور ہم بٹ کر رہ جاتے ہیں۔ ہم دعا گو ہیں کے اللہ ہمارے دلوں سے ہر قسم کے تعصب کو کھرچ کھرچ کر نکال دے اور پاکستان کیلئے مر مٹنے کی توفیق دے (آمین یا رب العالمین)
تحریر : خالد زاہد