لکسمبرگ (اصل میڈیا ڈیسک) پولینڈ اور یورپی یونین اس وقت قانونی جنگوں میں سینگ پھنسائے ہوئے ہیں۔ یہ معاملہ پولستانی عدالتی اور دستوری اصلاحات سے جڑا ہے۔ اب یورپی یونین کی عدالت کے خلاف پولستانی مزدور بھی سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
لکسمبرگ میں دو ہزار کے قریب پولستانی مزدوروں نے سڑکوں پر نکل کر اپنے ملک پولینڈ کے حق میں اور یورپی یونین کی عدالت کے ایک فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔
یورپی یونین کی عدالت نے پولینڈ کو کوئلے پیدا کرنے والی بڑی کان کو بند کرنے کا حکم جاری کر رکھا ہے۔ اعلیٰ ترین یورپی عدالت نے اپنا فیصلہ گزشتہ ماہ سنایا تھا۔ کوئلے کی یہ کان پولینڈ کے علاقے ٹُوروف میں واقع ہے۔
پولینڈ کے جنوب مغرب میں کھلی کوئلے کی کان کی وجہ سے اس ملک کے ہمسایہ ممالک چیک جمہوریہ اور جرمنی واویلا مچائے ہوئے ہیں۔ اس کان کو پولینڈ میں سبز مکانی گیسوں کے اخراج کا پانچواں بڑا مقام قرار دیا جاتا ہے۔
اس کان کنی کے خلاف پولش سرحد کے قریب چیک جمہوریہ کے ہزاروں دیہاتی بھی صدائے احتجاج بلند کر چکے ہیں۔
اس تنازعے پر چیک جمہوریہ یورپی یونین کی اعلیٰ عدالت سے رجوع کر چکا ہے۔ گزشتہ ماہ یورپی عدالتِ انصاف نے پولینڈ کو کوئلہ نہ نکالنے کے عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر پانچ لاکھ یورو جرمانہ کر چکی ہے۔
کان بند کرنے کا فیصلہ رواں برس مئی میں سنایا گیا تھا۔ یورپی کورٹ آف جسٹس نے جرمانے کے فیصلے میں حکم عدولی پر روزانہ کی بنیاد پر اتنا ہی جرمانہ ادا کرنے کا بھی حکم دیا۔
لکسمبرگ میں پولش مزدوروں نے زرد جرسیاں پہن کر عدالتی حکم کے خلاف اپنے ملک کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کی اور نعرے بازی کے ساتھ ساتھ بڑی پولستانی مزدور یونین سالیڈیریٹی کے سفید اور سرخ جھنڈے بھی لہرائے۔
مزدوروں نے عدالتی فیصلے کو غیر منصفانہ قرار دیا اور ٹُوروف کان سے دستبردار ہونے کی مخالفت کے عزم کا اظہار کیا۔ اس موقع پر سالیڈیرٹی کی کان کنی کی شاخ کے سربراہ یاروسلاو گرزیسک کا کہنا تھا کہ ٹُوروف کان کو بند کرنے سے پولینڈ کو انرجی میں شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پولینڈ میں اس وقت دائیں بازو کی قدامت پسند سیاسی جماعت لا اینڈ جسٹس پارٹی (PiS) کی حکومت ہے۔ یہ سیاسی جماعت عدالتی عمل میں وسیع تر اصلاحات کا ایک دستوری پیکج متعارف کرا چکی ہے۔ حکمران پارٹی اس پیکج کو انسداد کرپشن کا اہم عمل قرار دیتی ہے۔
دوسری طرف ناقدین کا کہنا ہے کہ قدامت پسند سیاسی جماعت اپنی حکومت کی قوت و طاقت کو وسعت دینے کے لیے عدالتی اختیار کو محدود کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے اور یہ یورپی یونین کی جمہوری روایات کے منافی ہے۔
اس کے علاوہ پولستانی حکمران جماعت نے اسقاطِ حمل کے قانون میں تبدیلی کا قانون رواں برس جنوری میں منظور کروا چکی ہے اور اس کے تحت اسقاطِ حمل پر قریب قریب مکمل پابندی لگا دی گئی ہے۔ دوسرے اقدامات میں ہم جنس پسندوں (LGBTQ) کے حقوق اور آزادی رائے پر بھی کنٹرول سخت کر دیا گیا ہے۔
اس تناظر میں وارسا اور برسلز کے درمیان کشمکش میں شدت پیدا ہو گئی ہے کیونکہ پولینڈ کی اعلیٰ دستوری عدالت نے یورپی عدالتِ انصاف کے عدالتی اصلاحات بارے فیصلے کے خلاف اپنی رائے دیتے ہوئے ملکی دستور کو افضل قرار دیا ہے۔ پولش عدالت نے یورپی عدالت کی فیصلے کو ملکی دستور کے منافی بھی قرار دیا۔
پولینڈ کے وزیر انصاف زبگنیو زیوبرو نے یورپی فیصلے کو ملکی معاملات میں مداخلت، اپنے اختیار سے تجاوز اور قانونی جارحیت کا نام دیا ہے۔ بعض یورپی ممالک نے پولستانی معاملات کو قانون کی حکمرانی کے منافی خیال کیا ہے۔
یورپی یونین کونسل کے سابق صدر ڈونلڈ ٹسک کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی عدالت کی مخالفت صرف پولستانی لوگ کر سکتے ہیں اور موجودہ سیاسی جماعت کو اختیار نہیں ہے۔ اس صورت حال میں بعض مبصرین اس رسہ کشی کو ‘پول ایگزٹ‘ کا نام دے رہے ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ پول ایگزٹ مراحل میں واضح ہوتا جا رہا ہے۔