یورپ (اصل میڈیا ڈیسک) یورپی یونین کے نئے قانون کے مطابق جب ایسے مواد کی شناخت ہو جائے تو ایک گھنٹے کے اندر ہی اسے ہٹا نا ہو گا۔ اس اقدام سے تاہم بعض گروپوں میں بے چینی بھی پائی جاتی ہے۔
یورپی یونین کی پارلیمان نے 28 اپریل بدھ کے روز ایک ایسے قانون کو منظوری دی ہے جس سے آن لائن پلیٹ فارمز کے لیے ایسے تمام مواد کو فوری طور پر ہٹانا لازمی ہو گا جو شدت پسندی یا دہشت گردی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اگر کوئی کمپنی ایسا کرنے میں ناکام رہتی ہے تو اسے اپنی بین الاقوامی آمدن کا چار فیصد تک کا جرمانے کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس قانون کے مطابق اگر یورپی یونین سے باہر کا ملک بھی ایسی کوئی شکایت کرے تو اس پر بھی عمل کرنا لازمی ہو گا۔ البتہ جس ملک میں ایسا ہوا ہو گا اسے اس بات کا تجزیہ کرنے کے لیے 72 گھنٹوں کا وقت ملے گا کہ آیا وہ مواد واقعی اس دائرے میں آتا ہے، کیا اس سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور کیا واقعی وہ شکایت درست ہے یا نہیں۔
اس قانون کے تحت تعلیم، صحافت، کسی خاص فن پارے اور تحقیق کے مقصد سے اگر کوئی ایسا مواد ہے تو اسے استثنی بھی حاصل ہو گا۔ قانون میں آن لائن کی چھوٹی اور غیر پیشہ ورانہ کمپنیوں کو بھی بعض رعایتیں دی گئی ہیں۔
یورپی یونین کے رکن ممالک نے اس حوالے سے ایک مسودے پر گزشتہ دسمبر میں اتفاق کیا تھا جس کی تمام ارکان پارلیمان نے متفقہ طور پر حمایت کی اور اسے بغیر کسی ترمیم کے ووٹنگ کے بغیر ہی منظور کر لیا گیا۔
اس بل کو ایوان میں پیش کرتے ہوئے یورپی یونین میں داخلی امور کے کمشنر ایلوا جانسن نے کہا، ”اس ضابطے کی بدولت دہشت گردوں کی جانب سے آن لائن بھرتی کرنے، آن لائن حملوں کے لیے اشتعال دلانے اور اپنی زیادتیوں کی مدح سرائی کے لیے جو آن لائن کا غلط استعمال کرتے ہیں، وہ مزید مشکل ہو جائے گا۔”
پولینڈ سے تعلق رکھنے والے رکن پارلیمان پیٹرک جاکی نے اس قانون کے بارے میں کہا کہ یہ قانون دہشت گردی کے خلاف ایک اہم آلہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ شدت پسند اپنے پیغام کی تشہیر کے لیے بڑے پیمانے پر انٹر نیٹ کا بھی استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے اس قانون کے مسودے کو ”متوازن اور اچھا بتاتے ہوئے کہا کہ اس میں ایک طرف جہاں اظہار کی آزادی کا خیال رکھا گیا ہے وہیں اس سے آن لائن کی سکیورٹی بھی بہتر ہو گی۔
گوگل اور فیس بک جیسی کمپنیوں کا کہنا ہے کہ وہ پہلے سے اس پر عمل پیرا ہیں اور پتہ چلنے کی صورت میں اس سے پہلے ایسے مواد کو ہٹا دیا جاتا ہے کہ کوئی اس تک رسائی حاصل کر سکے یا پھر اس کے بارے میں کسی کو کوئی شکایت کا موقع ملے۔
اس نئے قانون کے تحت آن لائن پلیٹ فارم آپریٹرز کو تمام مواد کی نہ تو نگرانی کرنے کی ضرورت ہو گی اور نہ ہی ایسے کسی فلٹر کو لگانے کی ضرورت ہے تاہم جب بھی اس طرح کے مواد کے بارے میں آگاہ کیا جائے تو انہیں اسے پر عمل کرتے ہوئے اسے ہٹانا ہو گا۔
حقوق انسانی کے مختلف گروپوں اور ایمنسٹی انٹر نیشنل اور ‘رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز’ سمیت سرکردہ غیر سرکاری تنظیموں نے تاہم اس قانون پر اعتراض کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے اظہار کی آزادی بری طرح متاثر ہو گی۔
اب اس قانون کو یورپی یونین کے سرکاری گزٹ میں شائع کیا جائے گا اور آئندہ ماہ سے رکن ممالک اسے اپنے قومی قوانین میں شامل کرنا شروع کریں گے۔ تاہم مکمل طور پر اس پر عمل تقریباً ایک برس بعد ہی شروع ہو پائے گا۔