انقرہ (اصل میڈیا ڈیسک) ترکی نے یورپی یونین سے اپیل کی ہے کہ وہ مشرقی بحیرہ روم میں قدرتی گیس کی تلاش کی وجہ سے پیدا ہونے والے علاقائی تنازعے کو ختم کرنے کے لیے ’کامن سینس‘ کا استعمال کرے۔
ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوش غلو نے ہنگری کے اپنے ہم منصب کے ساتھ انقرہ میں ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ترکی مکمل رکن کے طورپر یورپی یونین میں شامل ہونا چاہتا ہے اور کشیدگی کے لیے انقرہ کو مورد الزام ٹھہرانے کے حوالے سے یورپی یونین کے بیانات غلط ہیں۔
ترک وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ ترکی کی جانب سے سفارتی کوششوں کے باوجود یورپی یونین کے رکن ملک یونان نے ‘اشتعال انگیز‘ اقدامات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے پیر کے روز کہا تھا کہ ترکی رکن ممالک یونان اور قبرص کے ساتھ ممکنہ قدرتی گیس کے وسائل کے سلسلے میں اپنے تنازعے کو ختم کرنے کے لیے مدد کرنے میں ناکام رہا ہے۔ تاہم انہوں نے ترکی کے خلاف کسی طرح کی پابندی عائد کرنے کا فیصلہ یورپی یونین کی چوٹی کانفرنس پر چھوڑ دیا۔
چاوس غلو نے کہا ”انہیں سمجھداری اور ایمانداری سے کام لینا چاہیے۔ اگر وہ حکمت اور عقل سلیم کے ساتھ غور کریں گے، صرف چوٹی کانفرنس میں ہی نہیں بلکہ ہمیشہ، تو ہم ایک مثبت ماحول پیدا کرسکتے ہیں اور ہم اپنے تعلقات کو بہتر کرسکتے ہیں۔” ان کا مزید کہنا تھا کہ”ہم اپنے مسائل صرف بات چیت اور سفارت کاری کے ذریعہ ہی حل کرسکتے ہیں۔”
ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا ”ہم یورپی یونین کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔ ہم ایسا صرف اس لیے نہیں کہہ رہے ہیں کہ چوٹی کانفرنس ہونے والی ہے یا اس لیے کہ کانفرنس کے ایجنڈے پر پابندیاں اور دیگر امور ہیں۔ ہم مکمل رکنیت کی بنیاد پر اپنے تعلقات کو ہمیشہ بہتر کرنا چاہتے ہیں۔”
نیٹو کے رکن اور یورپی یونین کی رکنیت کا امیدوار ترکی کا یونان اور قبرص کے ساتھ مشرقی بحیرہ روم میں قدرتی گیس کی تلاش کے معاملے پر تنازع چل رہا ہے۔ اگست میں کشیدگی میں اس وقت اضافہ ہوگیا تھا جب ترکی نے توانائی کی تلاش کے لیے اپنے جہاز اروک ریز کواس متنازع سمندری علاقے میں بھیج دیا تھا جس پر یونان اپنا دعوی کرتا ہے۔
گوکہ ترکی نے یورپی یونین کی اکتوبر میں منعقدہ چوٹی کانفرنس سے قبل اورک ریز کو واپس بلالیا تھا لیکن اس کے کچھ دنوں بعد ہی یہ کہتے ہوئے اسے دوبارہ متنازعہ پانیوں میں بھیج دیا کہ مذکورہ کانفرنس سے کوئی اطمینان بخش نتیجہ نہیں نکلا۔ انقرہ نے تاہم اورک ریز کو گزشتہ ہفتے ایک بار پھر واپس بلا لیا ہے۔
یورپی کونسل کے صدر چارلس مائیکل نے ترکی کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ یورپی یونین کی چوٹی کانفرنسوں سے قبل اپنے جہازوں کو واپس بلانے اور اس کے فوراً بعد انہیں دوبارہ بھیجنے کا ‘چوہے بلی‘ کا کھیل نا کھیلے۔
انقرہ نے اورک ریز کو گزشتہ ہفتے ایک بار پھر واپس بلا لیا ہے۔
فرانس، ترکی پر پابندی عائد کرنے پر سب سے زیادہ زور دے رہا ہے۔ دوسری طرف ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے مذاکرات کی اپیل دہراتے ہوئے کہا کہ”ترکی دھمکیوں اور بلیک میلنگ کے آگے نہیں جھکے گا۔”
اس دوران چاوس غلو نے فرانسیسی وزیر خارجہ زاں ایف لو دریان سے منگل کے روز ٹیلی فون پر بات کی۔
لی دریان نے اپنے ترک ہم منصب سے کہا کہ یورپی یونین کے ساتھ ایک تعمیری تعلق صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب انقرہ متعدد امور پر اپنے موقف کو واضح کردے۔
ترک وزارت خارجہ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں رہنماوں نے علاقائی اور باہمی امور پر تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے تاہم اس کی تفصیل نہیں بتائی۔
قبل ازیں اردوان کی اے کے پارٹی کے ترجمان نے کہا تھا کہ ترکی کے خلاف ‘پابندیا ں عائد کرنے کی زبان‘ کا استعمال کرنا اس بات کا مظہر ہے کہ یورپ میں ‘نسل پرستوں اور فاششٹوں‘ کی جیت ہو رہی ہے۔ ترجما ن کا کہنا تھا”اس طرح کی زبان استعمال کرنے کا مطلب ہے کہ ان کے ذہنوں کو گہن لگ گیا ہے۔ یورپی یونین کو سمجھداری سے کام لینا چاہیے۔”