جنیوا (جیوڈیسک) اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف نے کہا ہے کہ بحیرہ روم کا پْر خطر سفر کر کے پورپ پہنچنے والے لاوارث بچوں کی تعداد رواں برس دوگنا سے بھی زیادہ ہو چکی ہے اور ایسے بچوں کو جنسی زیادتی اورجسم فروشی پر بھی مجبور کیا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے لیے امدادی ادارے نے کہا ہے کہ وہ یونان میں محصور 22 ہزار مہاجر بچوں کی بہبود کے لیے اپنے امدادی کاموں میں تیزی لائے گا۔
ایک تازہ رپورٹ میں یونیسیف نے مہاجرین کے بحران میں بچوں کی اس حالت زار پر انتہائی تشویش ظاہر کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس المیے پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کرے۔ سفر کے ہر قدم میں خطرات نامی اس رپورٹ میں یونیسیف نے لکھا ہے کہ اٹلی پہنچنے والے ہر دس بچوں میں سے نو بچے اکیلے ہیں۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ ماہ کے دوران کم ازکم سات ہزار بچے اس سمندری سفر کے بعد اٹلی پہنچ چکے ہیں۔
اس رپورٹ کے اجراء کے موقع پر سارہ کرو نے جنیوا میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت ہمیں معلوم نہیں ہے کہ یورپ پہنچنے والے لاوارث بچوں کی تعداد میں اضافہ کیوں ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے حقائق جاننے کی ضرورت ہے تاکہ اس مسئلے کے حل میں مدد مل سکے۔ رپورٹ کے مطابق لاوارث مہاجر بچوں کا استحصال کرنا آسان ہوتا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جو بچہ بھی اطالوی جزیروں پر پہنچا ہے، اس کے پاس سنانے کو انتہائی المناک اور لرزہ طاری کر دینے والی کہانیاں ہیں۔ لڑکے ہوں یا لڑکیاں، انہیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور جسم فروشی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ایسی کئی لڑکیاں بھی ہیں، جو طویل سفر کے بعد جب اٹلی پہنچیں تو وہ حاملہ تھیں۔
دریں اثناء انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرین (آئی او ایم)کا کہنا ہے کہ دو عشروں کے دوران آبی اور بَری راستوں سے سفر کرنے والے کم از کم 60 ہزار مہاجرین ہلاک یا لاپتہ ہوئے ہیں۔
مہاجرین کی بین الاقوامی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دو عشروں کے دوران آبی اور بَری راستوں سے سفر کرنے والے کم از کم 60 ہزار مہاجرین ہلاک یا لاپتہ ہوئے ہیں تاہم اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گذشتہ دو برس کے دوران زیادہ ہلاکتیں بحیرہ روم میں واقع ہوئیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ 2015 میں دنیا بھر میں 5400 مہاجرین جبکہ اِس سال دنیا بھر میں مجموعی طور پر 3400 سے زیادہ مہاجرین ہلاک ہو چکے ہیں۔