تحریر: محمداعظم عظیم اعظم آج ایک فرانسیسی ملعون جریدے کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد مسلم دنیا میں شدیدغم و غصے کی لہر پیدا ہو گئی ہے عالم اسلام فرانسیسی جریدے کی اِس ناپاک حرکت کے خلاف سراپا احتجاج ہے، پاکستان میں گستاخانہ خاکوں کے خلاف قومی اسمبلی میں مذمتی قرارداد منظورکی گئی اور ارکان نے احتجاج کیا ہے،آج گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد اسلامی دنیا کے بیشتر ممالک میں پُرامن توکہیں پُرتشدد احتجاجوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہوچکاہے، جس کا مقصد فرانسیسی ملعون جریدے کوآزادی اظہار کی آڑ میں اِس کی ناپاک حرکت پر مسلم دنیا کے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کئے جانے پر اُمتِ مسلمہ سے معافی مانگوانا اور آئندہ آزادی اظہارکی آڑ لے کر اِسے اور کسی اور کو ایسی ناپاک حرکت کرنے سے بازرکھناہے،آج ساری مسلم دنیا کے مسلمان پورے جذبہ ایمانی کے ساتھ اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، محسنِ اِنسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، معلم ِ اِنسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، نورمجسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضورپُرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،امام النبیا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی آخری الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت محمد مصطفیصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت سے سرشار ہیں اور فرانسیسی جریدے کی گستاخانہ خاکوں کی شیطانیت کو پوری قوت کے ساتھ مسترکرنے کے لئے سڑکوں پہ ہیں۔
حد تو یہ ہے کہ پچھلے دِنوںپوپ فرانسس نے بھی فرانسیسی ملعون جریدے کی گستاخانہ خاکوں کی چھپائی کو عیسائیت اور مسلم اُمہ کے خلاف سازش قراردی ہے اور ایک موقع پر خود عیسائیوں کے روحانی پیشواپوپ فرانسس نے گستاخانہ خاکوں کی مذمت کرتے ہوئے کہہ دیا کہ”آزادی اظہار کی بھی کوئی حدہوتی ہے،کسی بھی مذہب کا مذاق اُڑانا درست نہیں…اِِس موقع پراپنے مذمتی بیان میں اُنہوں نے بڑے کھلے دل ودماغ کا استعمال کیا اور اپنے کتوں اور سُوروں کا منہ چاٹنے والے پیروں کو سمجھاتے ہوئے یہ بھی کہہ دیا کہ وہ کتوں اور سُوروں کو اپنے ساتھ رکھ کر اور اِن کا شوق سے گوشت کھاکر خود اِن جیسے حیوان نہ بن جائیں یہ اِنسان ہی خود کو حیوان نہ بنائیں اُنہوں نے کہاہے کہ اگرکوئی میری ماں کے خلاف نازیباں الفاظ استعمال کرتاہے تو اِسے میراگھونسا کھانے کے لئے بھی تیاررہناچاہئے،پوپ فرانسس نے کہاکہ آزادی اظہار کی حد ہوتی ہے کسی بھی مذہب کی توہین نہیں کی جاسکتی ہے مزیدبرآںعیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے کہا کہ لوگوں کو نہ ہی مذہب کے نام پر کسی دوسرے کے عقائد کی توہین اور نہ ہی مذہب کے نام پر کسی کو قتل کرناچاہئے ،اور دہشت گردی کا تعلق اسلام یا مسلمانوں سے نہ جوڑاجائے“۔
جبکہ یہاں قابلِ غورامریہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں سے متعلق عیسائیوں کے روحانی پیشواپوپ فرانسس یہ ریماکس ایک اطالوی انتہاپسندمذہبی جنونی دہشت گرد صحافی انتونیوسوچی کو بڑے ناگوار گزرے اور اِس نے اپنے اخبارکروناگامیں پوپ فرانسس کو شدیدتنقید کا نشانہ بناتے ہوئے پوپ پرہی اسلام نوازی کا الزام عائد کردیاہے جس نے اپنے اخبار میں پوپ فرانسس سے متعلق مزیدلکھاہے کہ” پوپ نے دعائیہ تقریب میں اسلام اور مسلمانوں کو دہشت گردقرارنہ دے کر کھلم کھلا اسلام دوستی کی جو مثال قائم کی ہے وہ مذہب عیسائیت کی تعلیمات کے خلاف ہے پوپ کی اسلام نوازی کسی بھی طور مناسب نہیں ہے جس نے پوپ کی شخصیت کو عیسائیت میں مشکوک بنادیاہے “ جبکہ آج اُمتِ مسلمہ یہ سمجھتی ہے کہ پوپ فرانسس نے اسلام اور مسلمانوں سے متعلق جو ریماکس دیئے ہیںیہ حقائق پر مبنی ہیںاور ساتھ ہی مسلمہ اُمہ یہ بھی سمجھتی ہے کہ اگر واقعی پوپ کے یہ ریماکس خلصتاََ نیک نیتی کی بنیاد پر ہیں تو ہم اِس کی قدرکرتے ہیں اور اگر اِن کے اِن ریماکس میں بھی اسلام دُشمنی پرمبنی ایسا کوئی سازشی عنصر چھپاہواہے کہ ایک طرف سے چمکارے جاو ¿ اور دوسری جانب سے مارے جاو ¿ تو پھریہ عیسائیت اور اسلام کے لئے سوائے ہولناکی کے سواکچھ نہیں ہوگا ہے جس کا سارا فائدہ یہودیت کوہی ہوگا۔
Pope Francis
بہرحال …!! اُدھر ملعون دہشت گرد انتہاپسند مذہبی جنونی اطالوی صحافی انتونیوسوچی کے پوپ فرانسس کے خلاف لگائے گئے الزام کے جواب میں وینی گن سٹی سے پوپ کے ترجمان نے پوپ کے خلاف انتونیوسوچی کے الزام کو پروپیگنڈاقراردیتے ہوئے کہاہے کہ”پوپ فرانسس نے جو کہا وہ سب من وعن درست ہے، اسلام اورمسلمان دہشت گرد نہیں ہوسکتے ہیں ، کیوں کہ جب عیسائیوں مذہبی تعلیمات میں دہشت گردی اور قتل وغارت گری ناپسندیدہ عمل ہے تو بھلا پھر محسنِ اِنسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلممعلم ِ اِنسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبی آخر ی الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشاق (مسلمانوں) جن کے عالمگیر دین ا سلام کی بنیاد ہی محبت اور بھائی چارگی ،امن و آشتی پر قائم ہے وہ دہشت گردی کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں اِس موقع پر پوپ کے ترجمان نے حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ” 1976 میں عالمی سطح پر یہ طے ہواتھاکہ اسلام اور عیسائیت دونوں ہی اِنسانیت سے پیارکرنے والے مذاہب ہیں اور دونوں مذاہب ایک دوسرے کے قریب ترہیں اِس لئے آج کے اِس نفسانفسی کے دور میںاِن کے درمیان نفرت کو ختم کرنے اور اِنسانیت کی ترقی کے لئے یہ بنیادی اُصول بنایاگیاتھا“ مگر اَب شائد اسلام و مسلمانوں اور عیسائیت کے درمیان ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت دوریاں پیداکرنے اور ایک دوسرے کو لڑانے کے لئے مغرب کے بہت سے ا نتہاپسند اور مذہبی جنونیت میں متبلا انتونیوسوچی جیسے صحافی اور فرانسیسی ملعون جریدے جیسے عناصر گستاخانہ خاکوں سے اپنے عزائم کی تکمیل میں مصروفِ عمل ہیں جن کی ہر سطح پر مذمت کی جائے گی، جنہوں نے اپنی مذہبی جنونیت والی سوچوں اور انتہاپسندانہ کالموں سے عیسائیت کو اسلام کے خلاف بھڑکایاہے اور عیسائیت میں سیکڑوں ایسے انتہاپسند اور مذہبی جنونی گروپ تیارکردیئے ہیں اَب جوہر لمحہ عیسائیت کو اسلام اور مسلمانوں کے درمیان دستِ گربیان دیکھناچاہتے ہیں آج جس پر یہ گروپ یہ سمجھتے کہ وہ اِس طرح عیسائیت کی خدمت کررہے اور عیسائیت کی بقاو سالمیت کو برقراررکھ سکتے ہیں جبکہ ایسانہیں ہے اِس طرح تو عیسائیت کے یہ مذہبی جنونی گروپ دراصل اپنے وسائل کا بیجااستعمال کرکے عیسائیت کو دہشتگردمذاہب قرار دلانے میںلگے ہوئے ہیں۔
تاہم آ ج یورپ کے انتہاپسنداور مذہبی جنونیت میں مبتلاانتونیوسوچی جیسے صحافی اور فرانسیسی ملعون جریدے کا اتنا مضبوط اثرورسوخ سارے یورپ اور یورپی عوام پر قائم ہے کہ یہ جب چاہیں اپنے ناپاک عزائم کی تکمیل کرلیتے ہیں اور جب یہ چاہیں عیسائیت اور اسلام کے خلاف جنگ و جدل اور آگ و خون کا رن کھلواسکتے ہیں جیساکہ اِنہوں نے پچھلے دِنوں کیاہے۔
آج اہل یورپ کو عیسائیوں کے روحانی پیشواپوپ فرانسس کے اِس بیان کو ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچتے ہوئے یقیناسمجھناہوگاکہ” آزادی اظہارکی حدہوتی ہے ،کسی بھی مذہب کی توہین نہیں کی جاسکتی ہے“ اور امریکی صدراو ربرطانوی وزیراعظم کے اِس بیان کو عیسائیت اور مسلمانوں کے درمیان باعث تشویش جانناہوگاجیساکہ اُنہوں نے کہاہے کہ” وہ کسی کو بھی آزادی اظہاررائے کو دبانے کی اجازت نہیں دیں گے“ گویا کہ امریکی اور برطانوی وزیراعظم نے عیسائیوں کے روحانی پیشواپوپ فرانسس کی مذمت کو بھی ہوامیںاُرادیاہے اور ہر حال میں آزادی اظہارکو مقدم جاناہے ،اَب کیا اِن کا یہ عمل اور یہ سوچ دنیاکو امن کا گہوارہ بنائے گی …؟؟یا آزادی اظہارِ کے نام پہ فرانسیسی جریدے اور انتونیوسوچی جیسے ملعون مذہبی جنونیت میں مبتلاصحافیوںکو پھر عیسائیت اور اسلام کے درمیان دوریاں پیداکرنے کے لئے اُکسائے گا…؟؟
جبکہ آج ضرورت اِس امر کی ہے کہ اہل یورپ اپنے اردگرد ایسے عناصر کا خود احتساب کریں جو اِن میں اچھابن کر عیسائیت اوراسلام کے درمیان غلط فہمیاں پیداکررہے ہیں اور اپنے گھناو ¿نے قول وفعل سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچاکرایک طرف دنیاکے امن کو تباہ وبرباد کرنے کی سازشوں میں مصروف ہیںتو دوسری طرف اپنی ایسی مذہبی دہشت گردی اور انتہاپسندانہ جنونیت سے یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ عیسائیت کی خدمت کررہے ہیں ایسے عناصر کو اہل یورپ دہشت گرد گردان کر اِنہیںسزادے جو عیسائیت کا روپ دھار کر یسوح کی تعلیمات کو مسخ کررہے ہیں۔