تحریر : بشریٰ نسیم یورپ میں انتہا پسندی’ مسلم متعصب و شدت پسندی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ آیا وہ کسی طور بھی اسلامی تعلیمات کو برداشت کرنے کو تیار نظر نہیں آتے۔ مغرب کلچر’ تہذیب و ثقافت اپنی قدر کھو چکی ہے۔ ان کی تہذیب دم توڑتی جا رہی ہے۔ وہاں ہر اخلاقی و بحالی برائی عام ہے۔ جس کی وجہ سے رشتوں کا تقدس پامال ہو چکا ہے۔ ماں’ بہن’ بیوی’ بیٹی سے احترام کا رشتہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ گھر ٹوٹ رہے ہیں۔ خاندان تباہ ہو رہے ہیں۔ نسلیں دیگر آدم زاد اپنے مذہبی و اخلاقی تعلیمات سے باغی دکھائی دیتی ہیں ہر کوئی سماج کی زنجیروں کو توڑ کر مادر پدر آزاد گزارنے کا عادی ہوتا ہے۔ ان پرآشوب حالات میں یورپین ممالک میں اسلامی تعلیمات’ اور اسلام کی مقبولیت میں اضافہ خوش آئند ہے۔ لیکن اسلام دشمنوں کو یہ مقبولیت ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اسلامی شعائر پر پابندی عائد کرنے کے لئے نت نئے جواز ڈھونڈے جاتے ہیں۔ یورپ میں حجاب پر پابندی بھی اسی مذموم کی ایک کڑی ہے۔ ڈنمارک’ جرمنی’ فرانس اور ہالینڈ میں حجاب پر پابندی سے یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ اسلامی حجاب و برقعہ یورپ کا پسندیدہ موضوع بن چکا ہے۔ مسلمانوں کے لباس پر پابندی عائد کرنے کے لئے قانون سازی کی جا رہی ہے۔ اور اس پابندی کو توڑنے والوں پر جرمانہ و سزا بھی مقرر کر دی گئی ہے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ بر قعہ اور حجاب ان ترقی یافتہ یورپین اقوام کی عریاں قوم توڑتی تہذیب کے لئے ایک چیلنج بن گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپ میں حجاب کے خلاف قانون سازی کی جا رہی ہے۔ یورپ میں برطانیہ واحد ملک ہے جہاں ابھی تک حجاب پر پابندی عائد نہیں کی گئی اور مستقبل میں اس بات کا امکان بہت کم ہے وہ فرانس’ ہالینڈ’ جرمنی’ بیلجیئم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مسلم خواتین کے نقاب پہننے پر پابندی عائد کرے۔ امریکہ میں بھی ابھی تک ایسا قانون نہیں لایا گیا۔ بیلجیئم کی پارلیمنٹ نے عوامی مقامات پر حجاب پہننے پر پابندی عائد کر دی ۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے پر پندرہ سے 25 یورو جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔
سپین میں بھی مسلمان محفوظ نہیں یہاں پر بھی مسلمانوں پر اسلامی شعائر اپنانے پر پابندی عائد ہے۔ اس وقت سپین کے دو بڑے شہروں میں یہ مسلم مخالف قانون لاگو ہے اور ”لیڈا’ سپین کا پہلا شہر ہے جو اس پابندی کی زد میں آیا کیونکہ یہاں تین فیصد مسلمان آباد ہیں۔ سپین کے دوسرے بڑے شہر بارسلونا میں بھی اس پابندی کے اطلاق پر زور دیا جا رہا ہے۔ فرانس میں گزشتہ چند سالوں سے حجاب کے خلاف تحریک چل رہی تھی۔ پہلے یہ پابندی صرف تعلیمی اداروں تک محدود تھی۔ اسے سکول یونیفارم تک محدود رکھا گیا تھا۔ بعدازاں عمومی طور پر پابندی لگا دی گئی۔ نئے قانون کے تحت عوامی مقامات پر مسلم خواتین کے چہرہ ڈھانپنے پر پابندی عائد کی ہے۔ اس کی خلاف ورزی پر متعلقہ خاتون کو پولیس اسٹیشن طلب کرکے جرمانہ وصول کیا جائے گا اور اس کا نقاب بھی اتروا دیا جائے گا اور اگر کسی مسلمان مرد نے مسلم خاتون خواہ اس کی اہلیہ کیوں نہ ہو۔ پردے کے حوالے سے ترغیب دی تو ایسا کرنے والے کو بھی ایک سال قید اور پندرہ ہزار یورو جرمانہ دینا ہو گا۔
فرانس کی حکومت نے ایک غیر ملکی شخص کو اس لئے شہریت دینے سے انکار کر دیا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو زبردستی نقاب پہننے کی ہدایت کی تھی۔ فرانس کی پارلیمنٹ میں پردے کے خلاف کی گئی قانون سازی جو وجوہات بیان کی گئی انہیں ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ چہرے کا پردہ فرانس کے اقدار کے خلاف ہے اور اس سے فرانسیسی قوانین کے مطابق مرد اور عورت کی تفریق ہوتی ہے۔ پردہ عورتوں کی آزادی چھین کر انہیں قیدی بنا دینے کے مترادف ہے۔ پردہ عورت کو مجبور اور غلام بنا کر رکھ دیتا ہے۔ یہ عورتوں کو زبردستی فرمانبردار اور تابعدار بنا دیتا ہے۔ پردہ عورتوں کو ان کی بنیاد سے ہٹا دیتا ہے’ سماجی زندگی میں انہیں ان کی شناخت سے بھی دور کر دیتا ہے۔ اس سے فرانسیسی ثقافت کی توہین ہوتی ہے۔
بعدازاں فرانس کے بعد ہالینڈ میںبھی برقع پہننے پر پابندی کا اعلان ہو گیا۔ ہالینڈ کی وزارت داخلہ کے بیان میں کہا گیا کہ برقع، نقاب یا حجاب اور ایسے ملبوسات جن سے چہرہ نظر نہ آئے، کے پہننے پر مکمل پابندی ہوگی۔ ہالینڈ کی حکومت کے مطابق یہ پابندی صرف برقع یا دیگر اسلامی ملبوسات پر نہیں بلکہ یہ پابندی چہرہ چھپانے والی ہر چیز پر ہوگی۔
واضح رہے کہ ہالینڈ کی سترہ ملین کی آبادی میں سے ایک ملین آبادی مسلمانوں کی ہے۔ فرانس کے ایوان زریں نے جولائی 2010ء میں حجاب پر پابندی کے بل پر منظوری دی تھی جس کے بعد اپریل 2011ء کے دوران پارلیمان کے منظور کردہ قانون کے تحت مسلم خواتین کے مکمل حجاب اوڑھنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ یاد رہے کہ فرانس نقاب پر پابندی لگانے والا یو رپی یونین کا پہلا رکن ملک ہے۔ چنانچہ اب فرانس میں عوامی مقامات پر چہرے پر نقاب اوڑھنے والی کسی بھی مسلم خاتون کو جرمانے اور قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فرانس کے پارلیمانی کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں تیار کردہ اس قانون کے تحت ملک کے تمام سکولوں، ہسپتالوں، سرکاری ٹرانسپورٹ اور سرکاری دفاتر میں مسلم خواتین کے مکمل حجاب اوڑھنے پر پابندی عائد ہے اور ان مقامات پر حجاب اوڑھ کر آنے والی خواتین کو 170 روز تک جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ جو مرد حضرات اپنی بیویوں، بیٹیوں اور بہنوں کو حجاب اوڑھنے پر مجبور کریں ۔یا جو علماء اس کی تبلیغ کریں انہیں تیس ہزار روز تک جرمانے اور ایک سال قید کی سزا دی جاتی ہے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ فرانس میںیورپ کی سب سے بڑی مسلم کمیونٹی رہ رہی ہے اور وہاں مقامی اور غیر ملکی تارکین وطن سمیت مسلمانوں کی تعداد ساٹھ لاکھ سے متجاوز ہے۔
حیران کن امر یہ ہے کہ جس معاشرے میں پردے کو معاشرتی تعلقات میں رکاوٹ قرار دے کر ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے وہاں کی خواتین میں اسلام اور حجاب کی مقبولیت بڑھتی جا رہی ہے۔ ”ناوسی والف” خواتین کی آزادی اور سوسائٹی میں انکی عزت و احترام کے قیام کیلئے کام کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے دو کتابیں بھی لکھی ہیں مختلف مذاہب اور تہذیبوں میں خواتین کی حیثیت کا مطالعہ و مشاہدہ ان کا خاص شغف ہے۔ حجاب کے حوالے سے ایک مسلم ملک میں مسلم لباس کا تجربہ انہوں نے یہ دیکھنے کے لئے کیا تھا کہ اس لباس میں عورت خود کیامحسوس کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ میں مراکش میں اپنی قیام گاہ سے جب بازار جانے کے لئے نکلی تو میں شلوار قمیض میں ملبوس تھی اور سر سکارف سے ڈھکا ہوا تھا۔ مراکش کی مسلم خواتین میں سکارف عام ہے۔ ہر جگہ ان کا احترام کیا جاتا ہے۔ لیکن وہ چونکہ غیر ملکی خاتون تھی، لہٰذا تجسس اور حیرت بھری نظریں ان کی طرف ضرور اٹھ رہی تھیں۔ لیکن تجسس کی کچھ نگاہوں کو چھوڑ کر مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ میں بالکل آرام سے تھی کسی بات کی فکر نہیں تھی۔ میں ہر لحاظ سے خود کو محفوظ بلکہ ایک طرح سے آزاد محسوس کر رہی تھی۔
مسلم خواتین پردہ اور جنس کے موضوع پر اپنے آرٹیکل میں ناوسی والف نے اہل مغرب کو مشورہ دیا ہے کہ مسلم اقدار کو دیانت داری کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں۔ پردے کا مطلب عورت کو دبا کر رکھنا ہرگز نہیں ہے۔ مغرب نے عورت کو آزاد چھوڑ کر ایک طرح سے جنس بازار بنا کر رکھ دیا ہے۔ جبکہ اسلام نے عورت کو پردے میں رکھ کر اسے تحفظ دیا ہے ۔ اسے چاردیواری میں مقید کیا نہیںبلکہ اس کو اپنے خاندان کو بخوبی چلانے کی ذمہ داری ڈالی ہے۔ دنیا میں طاغوتی قوتوں کی طرف سے اٹھائے گئے اسلام مخالف اقدامات، دراصل مغرب میں اسلام کی تیزی سے بڑھتی ہوئی مقبولیت کا راستہ روکنے کی ناکام کوشش ہیں۔ کیونکہ گزشتہ ایک دہائی کے دوران جس طرح مغرب میں اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اس نے صہیونی آلہ کاروں کی نیندیں اڑا دی ہیں۔ صرف امریکہ میں سالانہ 20 ہزار افراد دائرہ اسلام میں داخل ہو رہے ہیں۔