اس وقت یورپ علم و فن میں اپنی بالادستی کی بدولت پوری دنیا پر اپنا سکہ جمائے ہوئے ہے۔سائنسی میدان میں اس کی ایجادات انسانیت کیلئے نعمتِ غیر متبرکہ سے کم نہیں ہیں۔دنیا کی جدید ترین لیبارٹیا ں ، یونیورسٹیاں،ریسرچ سنٹرز اور اور تعلیمی ادارے یورپ میں قائم ہیں۔موبائل کی ایک ایجاد نے اس کرہِ ارض پر جس تبیدیلی کا بیج بویا ہے اس نے کلچر، ثقافت،رسم و راوج اور انسانی عادات و اطوار کو بڑ ی بے رحمی سے کچل دیا ہے۔پرانی دنیا زمین بوس ہو گئی ہے اور نیا کلچر اپنے پھریرے لہرا رہا ہے۔یورپی تفوق کی اس سے بڑی مثال اور کیا ہو گی کہ برِ صغیر پا ک و ہند کے اکثر سیاسی زعماء یورپی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہوئے ۔ یورپ سے فارغ التحصیل ہونا آج بھی اعزاز سمجھا جاتا ہے۔قائدِ اعظم محمد علی جناح،ڈاکٹر علامہ محمد اقبال،مہاتما گاندھی،پنڈت جواہر لال نہرو ،ذولفقار علی بھٹو،محترمہ بے نظیر بھٹو،عمران خان مغربی تعلیم سے آراستہ تھے۔ میاں محمد نواز شریف ، میاں محمد شہباز شریف اورمریم نواز اپنے کاروباری معاملات کی وجہ سے یورپ سے تعلیم حاصل نہ کر پائے۔در اصل مسلمان تحقیقی معاملات میں انتہائی سست رو واقع ہو ئے ہیں لہذا وہ خیالی محلات تعمیر کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا عزم نہیں پالتے ۔
گفتار کے غازی کردار کا غازی بننے کی زحمت نہیں اٹھا تے۔مسلم ممالک میں چونکہ ملوکیت کا دور دورہ ہے اس لئے وہاں کے حکمرانوں کو نہ تو سائنس میں دلچسپی ہے اور نہ ہی علوم ِ سماوی اور ارضی سے کوئی رغبت ہے۔وہ عوام کو جاہل، انپڑھ اور رجعت پسند رکھنا چاہتے ہیں تا کہ علم و فنون کی روشنی سے عوام کی شعوری سطح بلند نہ ہو جائے اور وہ ان کی استحصالی سوچ کے خلاف اٹھ کھڑے نہ ہوں ۔عرب بہار میں بغاوت کے کچھ آثار نظر آئے تھے لیکن فی الحال امریکہ نے یہ سلسلہ روک دیا ہے ۔مسلمان زعماء سیمینار ز،لیکچرز اور محافل تو سجاتے ہیں لیکن عملی میدان میں تہی دامن ہیں ۔البتہ فرقہ پرستی اور دھڑے بندیوں کا ایک میدان ایسا ہے جس میں انھیں مہارت ہے اور جس میں وہ اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ دوسروں کو کافرو غدار کہنے سے انھیں فرصت ملے گی تو وہ علم و فن کی ترویج میں دلچسپی لیں گے۔باہمی سر پھٹول کی ایسی گھٹیا سوچ کا اقبال نے انتہائی مہارت سے نقشہ کھینچا ہے(وہ مذہب مردانِ خود آگاہ و خدا مست ۔،۔ یہ مذہب ملا و جمادات و نباتات )۔،۔
موجودہ دور میں کوئی ایسی ایجاد نہیں جس کا سہرا یورپ کے سر نہ بندھا ہو۔ ایک زمانہ تھا کہ مسلمان سائنسی علوم میں امام تصور ہوتے تھے۔اندلس(ہسپانیہ) کو سائنسی علوم کا باب العلم کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا ۔ جب یورپ اندھیروں میں ڈوبا ہو اتھا،تاریکیاں اس کا مقدر تھیں،رجعت پسندی اور اوہام پسندی نے اسے جکڑا ہوا تھا تو اس وقت ابنِ سینا ، ابن ہیتھم ،ابنِ رشد ،امام غزالی اور امام رازی دنیا بھر کی نگاہوں کا مرکز تھے۔عوام الناس ان کے علوم سے بہرہ ور ہوتے تھے۔ علم فلکیات،علمِ نجوم اور علم سائنس میں انھیں اتھارٹی تسلیم کیا جاتا تھا ۔اندلس کی یونیوسٹیوں میں مسلمان دانشوروں کی علم و حکمت سے لبریز کتابوں سے اکتساب سے یورپ سائنسی ترقی کی شاہراہ کا مسافر بنااور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب سے آگے نکل گیا۔بقول اقبال ( علم کے موتی وہ کتابیں اپنے آبا کی ۔،۔ جو دیکھا ان کویورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ ) ۔ سائنسی ترقی نے صنعتی ترقی کی بنیاد رکھی اور یورپی صنعت و حرفت دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بن گئی۔انہی تجارتی وفود اور قافلوں کی آڑ میںپوری اسلامی دنیا یورپی اقوام کی زیرِ نگیں ہو گئی۔غلام قو میں نہ تو ریسرچ کرتی ہیں اور نہ ہی کسی قسم کی ایجادات ان سے منسوب ہو سکتی ہیں۔سولہویں صدی میں یورپ میں عقلی تحریک نے یورپی اقوام کے بند دریچپوں کو کھولا تو یورپ میں بڑی بڑی یونیورسٹیاں قائم ہوئیں۔ سائنسی علوم پر دسترس میں یورپ سب پر بازی لے گیا جبکہ مسلم دنیا علم و فن سے دور ہوتی چلی گئی۔کیا یہ مقامِ افسوس نہیں ہے کہ پوری دنیا میں پہلی ٤٠٠ یونیورسٹیوں میں کسی مسلمان ملک کی ایک بھی یونیورسٹی شامل نہیں ہے۔
علم سے محبت تو خدائے علیم و بصیر کی پہلی وحی سے شروع ہوجاتی ہے۔(اقرا باسم ربِ کلَ ذی )اسلام کا پہلا سبق ہے لیکن پھر بھی مسلمان اس جانب توجہ نہیں کرتے اورمیلوں ٹھیلوں، رنگ رلیوں، مستیوں اور ڈھول ڈھمکوں میں مستغرق رہتے ہیں۔تیل کی دولت نے عربوں کو نئی شناخت دی اور ان کی اہمیت کو دنیا بھر میں اجاگر کیا ۔حجاز کے وہ عرب شیوخ جو کل تک نظام حیدر آباد دکن (ہندوستان)سے وظائف وصول کرتے تھے آج ان کے پاس اتنی دولت ہے جس کی کوئی انتہا نہیں ۔ار بوں ڈالر کامالک ہونے کے باوجود علم و فن میں ان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ مسلم ریاستیں آج بھی یورپی اقوام کا طوقِ غلامی پہنے ہوئے ہیں۔یورپ کی مذمت میں نعرے،بیانات اور بھڑکیں تو ضرور سنائی دیں گی لیکن جبب بھی امتحان کا وقت آئے گا مسلم حکمران زمین پر لیٹ جائیں گے۔افغانستان کا معرکہ ہمارے سامنے ہے جس میں نائن الیون پر ہمارے کمانڈو نے یہی کیا تھا۔ایک فون کال نے اس کی ساری بہادری ہوا کر دی تھی۔جو انسان اپنے عوام کے خونِ نا حق پر انھیں مکے دکھائے لیکن اغیار کے سامنے لیٹ جائے اس کی بے حسی پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے۔شائد ایسے ہی لوگوں کیلئے اقبال جیسے دیدہ ور نے کہا تھا۔ ( یہ کس شوخ نے لکھ دیا محرابِ مسجد پر ۔،۔ کہ ناداں گر گے سجدوں میں جب وقتِ قیام آیا) ۔،۔
اگر دوسری جنگِ عظیم برپا نہ ہوتی تو ہم آج بھی اپنی گردنوں میں یورپ کا طوقِ غلامی سجائے ہوتے۔دوسری جنگِ عظیم کی تباہ کاریوں نے جس طرح انسانیت کی تذلیل کی وہ ایک الگ موضوع ہے ۔ کروڑوں انسان لقمہ ِ اجل بنے اور گھر گھر صفِ ماتم بچھی۔ انسانیت یوں نو حہ کناں ہو ئی کہ چشمِ فلک سے بھی آنسو چھلک پڑے ۔جنگ کی تباہ کاریوں نے اکثر گھرانوں کی خوشیاں سلب کر لیں۔کاروبار تباہ ہو گے ، غربت ، بھوک، ننگ اور بے رزگاری انسانیت کا مقدر بنی۔جہاں جہاں انسان بستے تھے ان کی زندگی بڑی سخت اور کٹھن ہو گئی ۔ محنت و مشقت اور جفا کشی کے باوجود بھی انسانوں کی زندگی میں خوشخالی ،سکھ چین اور سکون جگہ نہ بنا سکا۔ یورپ عالمی جنگ میں فتح یاب تو ہو گیا لیکن اس کی عسکری قوت بالکل تباہ و برباد ہو گئی جس کی وجہ سے ہر جگہ آزادی کی تحریکوں نے زور پکڑا جسے دبانا یورپی اقوام کیلئے ممکن نہ رہاکیونکہ اس کے پاس عسکری قوت ہی باقی نہ رہی تھی لہذا اس کیلئے غیر ملکیوں پر اپنا تسلط برقرار رکھتا ناممکن ہو گیا ۔برَ صغیر پا ک وہند جس کی آبادی کروڑں میں تھی اسے اب چند ہزار فوجیوں سے دبانا ممکن نہیں تھا لہذا دوسری جنگِ عظیم نے کالونی ازم کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ایشیا،افریقہ اور لاطینی امریکہ کے کئی ممالک دوسری جنگِ عظیم کی بدولت آزادی کی نعمت سے سرفراز ہوئے۔
یورپ نے تاریخی تباہی کے باوجود علمی تفوق کی شاہراہ سے خود کو دور نہیں کیا لہذا اس کے علمی تفوق نے نو آزاد ممالک پر اپنا اثرو رسوخ مزید گہرا کر دیا۔وہ کہنے کو توآزاد ہو گے لیکن ان کی شہ رگ یورپ کے ہا ُتھوں میں مرتکز ہو گئی ۔ انتخابات کے نام پر مخصوص خاندانوں کو زمامِ اقتدار سونپی جانے لگی۔فوجی جنتا اور سپہ سالاروں نے آئینی حکومتوں کا تختہ الٹ کر اپنے ہی عوام پر مارشل لائوں کا نفاذ کر دیا۔کٹھ پتلیوں کا ایسا تماشہ لگا ہے کہ انسان حیران و شسدر ہوجائے ۔آگ اور خون کے دریا عبور کر کے حاصل کردہ آزادی کو یورپ کی چوکھٹ پر ڈھیر کر دیا گیا ہے۔اخباری بیانات اور ٹیلیویژنوں کی سکرینیں جذبہِ حریت کی نقیب نظر آتی ہیں لیکن ہو تا وہی ہے جو امریکہ و یورپ چاہتا ہے کیونکہ ان کا علمی تفوق مسلمہ ہے۔جب تک قوم علم و فن میں ترقی نہیں کرے گی یورپی تسلط سے جان نہیں چھوٹ سکتی۔آزادی کی حفاظت کیلئے علم و فن میں دسترس لازمی ہے وگرنہ ہم تو ٹھہرے بے توقیر و بے وقعت نظرِ اغیار میں ۔دلِ اقبال کی پکار سنئیے(نہ تو زمیں کیلئے ہے نہ آسماں کیلئے ۔،۔ جہاں ہے ترے لئے تو نہیں جہاں کیلئے )۔،۔(رہے گا راوی و نیل و فرات میں کب تک ۔، ۔ تیرا سفینہ ہے کہ ہے بحرِ بیکراں کیلئے )۔
Tariq Hussain Butt
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندرانِ اقبال۔۔