تحریر: الیاس حامد کتنا ہی عجیب معاملہ ہے کہ لوگ مجھے ملتے وقت گھورتے ہیں، کچھ لوگ میری ہیئت (Getup) کو دیکھ کر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں اور کچھ مل کر مضطرب ہوتے ہیں، یہ سلسلہ چند ماہ سے شروع ہوا ہے جب سے میں نے ڈاڑھی رکھی ہے، میں مسلم ہوں، چہرہ پر بال یعنی ڈاڑھی بڑھانا میرا ذاتی فعل ہے، یہ مجھ پر منحصر ہے کہ میں ڈاڑھی مذہبی نقطہ نگاہ سے رکھتا ہوں یا کسی اور غرض سے۔ اس معاشرے میں کئی لوگ ہیں جنہوں نے (Fasion beard) بطور فیشن ڈاڑھی رکھی ہے مگر انہیں ایسی صورت حال کا سامنا نہیں ہے۔ البتہ ایسا ضرور ہے کہ اگر میں گوری چمڑی والا ہوتا تو چہرے پر (Ginger beard) سنہری رنگ کی ڈاڑھی ہوتی تو کوئی مجھے شاید اس طرح نہ گھورتا، کیونکہ اس وقت فیشنی ڈاڑھی تصور کی جاتی تھی، جیسا کہ کئی سفید چمڑی والے گورے آج کل فیشنی ڈاڑھی رکھے ہوئے ہیں، میرا رنگ چونکہ گندمی ہے اور بالکل وہی عمل میں نے کیا ہے جو کہ ایک گورا فیشن کے طور پر کرتا ہے اس لئے مجھے وہ خاص نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
میں نے ایک سال قبل ڈاڑھی بڑھانے کا ارادہ کیا، اب میرے چہرے کے بالوں کی لمبائی ساڑھے تین سے چار انچ تک ہے۔ مجھے اس حالت میں مختلف قسم کے حالات اور رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مثلاً مجھے مسلم ساتھی ملتے ہیں تو کہتے ہیں السلام علیکم، تب مجھے بہت سکون اور اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ وہ مجھ سے اپنی کمیونٹی کے مسائل شیئر کرتے ہیں، حالات کی تنگی کا بتلاتے ہیں اور مجھے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ اس رویے سے میرا سینہ کشادہ ہو جاتا ہے اور مجھے خوشگواری کا احساس ہوتا ہے۔ میری والدہ حالات کی وجہ سے متفکر ہیں کہ کہیں مجھے نسل پرستانہ رویے کے باعث پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ میرے والد صاحب کا خیال ہے کہ میں اسے کم کر دوں۔ غیر مسلم جب مجھ سے ملتے ہیں تو ان کا پہلا سوال ہوتا ہے (Religion or Fashionable) اسے دینی فریضے کے طور پر رکھا ہے یا کہ بطور فیشن؟ میرا دل کرتا ہے کہ کہوں دونوں مقاصد کے لئے لیکن میں ایسا نہیں کرتا۔ درحقیقت مجھے اس ڈاڑھی سے محبت ہے کیونکہ یہ سنت ہے اور ایک مسلمان کی شناخت ہے۔ اس وجہ سے مجھے یونیورسٹی اور اپنی کمیونٹی میں اگرچہ کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن میرے اندر ایک ایسا احساس پیدا ہوا ہے جو کہ مجھے اندرونی اور باطنی طور پر مضبوط کرتا ہے۔ مجھے ان مسائل اور مشکلات کا کوئی بوجھ محسوس نہیں ہوتا بلکہ ایک روحانیت مجھے تقویت دیتی ہے۔ میری یہی بات سب باتوںسے اطمینان کا باعث ہے۔ ان خیالات اور احساسات کا اظہار کنگز لندن کالج یونیورسٹی کے سٹوڈنٹ اریب اللہ نے برطانوی جریدے دی گارڈین سے کیا۔
Muslim
چہرے پر بال بڑھانا یا ڈاڑھی رکھنا اسلامی شعار ہے جس کی شریعتِ اسلامیہ میں جابجا تلقین ہے۔ ظاہری طور پر ایک مسلمان کے چہرے اور غیر مسلم کے چہرے میں امتیاز کرنے کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اگرچہ دیگر مذاہب میں بھی ڈاڑھی رکھنے کا تصور ہے جن میں الہامی اور غیر الہامی دونوں مذاہب شامل ہیں۔ مگر یہاں ہمارا مقصود نظر وہ خاص ٹرینڈ ہے جس نے دیگر معاشروں اور کلچر پر اپنے اثرات مرتب کئے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ اسلام اس وقت دنیا کا تیزی سے پھیلتا ہوا مذہب ہے۔ جس تناسب سے لوگ اسلام کے گوشۂ عافیت میں آ رہے ہیں، عیسائیت، بدھ مت اور ہندوازم سمیت دنیا کے بڑے بڑے مذاہب اس سے پیچھے ہیں۔ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ ان ادیان و مذاہب کی نشرواشاعت اور ترویج میں بے پناہ سرمایہ اور وسائل جھونکے جا رہے ہیں۔ ان کے مشنری اداروں کے بجٹ کئی بڑے بڑے ممالک سے زائد ہیں۔ ان کی تگ و دو اور جدوجہد کہیں زیادہ ہے۔ رات دن مشنری سرگرمیوں میں مصروف ہیں، مگر جو چیز لوگوں کو اپنی طرف زیادہ راغب کرتی ہے وہ صرف اور صرف اسلام کی حقانیت ہے۔ اس حقانیت کو یورپ و امریکہ کے غیر مسلم اپنانے پر مجبور ہیں۔ اہلِ اسلام میں قدرت نے ایسی کشش اور جاذبیت رکھی ہے کہ جو دیگر حاملین مذاہب میں نہیں ہے۔
یورپ کے نوجوان جو آج مشرف بہ اسلام ہو رہے ہیں، ان کے نورانی چہرے عیسائی نسل کو متاثر کئے بنا نہیں رہتے، اپنے باریش چہرے کے ساتھ یہ جہاں بھی جاتے ہیں اثر چھوڑے چلے جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یورپ میں آپ کو ایسے کئی افراد ملیں گے جو مسلم نہیں ہیں مگر انہوں نے چہرے پر مکمل ڈاڑھی بڑھا رکھی ہے، اس کو اب وہ جدید فیشن کا نام دیتے ہیں۔ یعنی کہ اگر کوئی مکمل ڈاڑھی والا نوجوان ملے تو ضروری نہیں کہ وہ باریش مسلمان ہی ہے، ایسا بھی ہے کہ غیر مسلم نوجوانوں نے اس کلچر کو اپنایا ہے۔
Europe
قومیں جن انسانوں سے متاثر ہوتی ہیں ان کے کلچر، تہذیب، بودوباش اور ظاہری شکل و شباہت کو اپناتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں جب انگریز قابض ہوئے تو ان کی تہذیب سے اثرپذیر ہو کر اہل برصغیر نے چہروں کو صاف کرنا شروع کیا اور یہ سلسلہ کسی نہ کسی طور میں ہر خطے میں پایا جاتا ہے۔
آج یورپ میں وہ نوجوان جو اسلام کو اپناتے ہیں۔ جب اپنے چہرے کو سنت سے سجاتے ہیں تو ان کے کردار اور اخلاق سے اپنے معاشرے میں لامحالہ اثر ہوتا ہے۔ باوجود اس کہ ان پر یورپ کی ایجنسیاں کڑی نظر رکھتی ہیں، انہیں ہمیشہ شک کی نگاہ سے دیکھتی ہیں، ان کی جاسوسی کی جاتی ہے۔ مسلمانوں کے معمولاتِ شب و روز کا ایک ایک لمحہ واچ کیا جاتا ہے، میڈیا میں اسلام اور اہل اسلام کو حتی الوسع منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے۔
ایسی شکل و شباہت کے حامل افراد کا کردار دفعتاً بدل جاتا ہے اور ان میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ یہ اخلاق، حسن اور کردار کی شائستگی اپنا رنگ دکھاتی ہے۔ ان کے دوست احباب، ساتھی، شریکِ کار، کلاس فیلو اس سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتے۔ ایسے میں ان افراد کو نفسیاتی برتری اور کردار کا تفوت (Psycological edge) حاصل ہوتا ہے۔
یہ وہ چیز ہے جو دیگر غیر مسلم جوانوں کو اپنا چہرہ باریش کرنے پر اکساتی ہے اور یوں ڈاڑھی اب اس معاشرے میں ایک فیشن بھی بن چکی ہے۔ کل تک اس ڈاڑھی کو نشانہ بنانے والے، حقارت سے دیکھنے والے، دقیانوسی انداز سے تعبیر کرنے والے اب اسے خود اپنا رہے ہیں، یہ سلسلہ چاہے جس انداز سے بھی موجود ہے غیر مسلم اس سے نفسیاتی طور پر متاثر ہیں۔
Islam
اسلام اپنے اثرات میں وہ یکتا دین ہے کہ ایسی خوبی سے دیگر ادیان خالی ہیں۔ لوگوں کے لئے وہ کشش اور جاذبیت نہیں ہے جو کہ دین اسلام میں ہے۔ اسلام کے خلاف پراپیگنڈہ، نفرت کا طوفان اور تمام تر منفی ہتھکنڈوں کے باوجود اہل مغرب کے لئے یہ کشش کا باعث ہے۔ اس کو اپنانے میں وہ اپنی نجات تصور کرتے ہیں۔
خواتین اپنے تحفظ کا ضامن گردانتی ہیں اور اس گوشۂ عافیت میں ہی اپنی فلاح تلاش کرتی ہیں۔ اسلام کے حق و صداقت کے جہاں لامتناہی دلائل و براہین ہیں ان میں ایک یہ بھی ہے۔