یورپ (اصل میڈیا ڈیسک) یورپ کے تقریباﹰ ہر ملک میں کورونا کے انفیکشن بڑھ رہے ہیں، جس سے بعض ملکوں میں ایک اور لاک ڈاؤن کے خدشات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق یورپ میں آج کل روزانہ چالیس سے پچاس ہزار نئے کیسز سامنے آ رہے ہیں۔ مریضوں میں یہ اضافہ محض اس لیے نہیں کہ یورپ میں ٹیسٹگ بھی کافی ہو رہی ہے۔ اسی لیے یورپی ممالک میں کورونا کی دوسری لہر روکنے کے لیے ممکنہ لاک ڈاؤن پر تشویش بڑھ رہی ہے۔
مارچ میں وبا کے ابتدائی دنوں میں حکومتوں نے جو لاک ڈاؤن نافذ کیا اس کے اثرات سے کئی لوگ اور کاروباری حلقے ابھی تک نہیں نکل پائے۔ یورپی رہنماؤں کے مطابق کوئی دوسرا لاک ڈاؤن معیشت کے لیے ایک دھچکے، مصیبت اور تباہی سے کم نہیں ہوگا۔ اس لیے حکومتوں کی پوری کوشش ہے کہ ایسی نوبت نہ ہی آئے۔
وبا کے شروعاتی مہینوں میں جب کیسز کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی تھی تو ان دنوں ممالک میں سخت لاک ڈاؤن نافذ کیے گئے۔ اس کا فرانس اور اسپین کی معیشت پر خاصا منفی اثر پڑا۔ اب ان ممالک میں ایک بار پھر کیسز میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فرانس کا کہنا ہے کہ اس بار جس حد تک ممکن ہو سکا حکومت کی پوری کوشش ہوگی کہ لاک ڈاؤن کی نوبت نہ آئے۔
البتہ حکومت نے پیرس سمیت ملک کے کئی شہروں میں سماجی فاصلوں سے متعلق مزید پاندیاں عائد کی ہیں اور ان پر سختی سے عمل یقینی بنایا جا رہا ہے۔ لوگوں کے میل جول پر پابندی ہے، شراب خانوں کے اوقت محددو کردیے گئے ہیں، بزرگ افراد کی نگہداشت کے مراکز میں لوگوں کا آنا جانا بند کر دیا گیا ہے اور گھر سے باہر عوامی مقامات پر ماسک پہننا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔
اسی طرح اسپین نے بھی پیر سے دارالحکومت میڈرڈ کے نوحی اضلاع میں سخت پابندیاں لاگو کرنے کا اعلان کیا ہے۔ لوگوں کو صرف ضرورت کے تحت ہی گھروں سے نکلنے کی اجازت ہے، جس میں کام پہ جانا، سکول، ہسپتال یا پھر عدالت کی پیشی کے لیے جانا شامل ہے۔
یورپ کی سب سے بڑی معیشت جرمنی کے کاروباری حلقوں میں بھی ممکنہ لاک ڈاؤن سے متعلق خاصی تشویش پائی جاتی ہے۔ ملک میں درمیانے درجے کے کاروبار سے متعلق فیڈریشن کا کہنا ہے کہ موجودہ حالات میں کئی کمپنیاں پہلے ہی دیوالیہ ہونے سے بچنے کی کوششوں میں لگی ہوئی ہیں اور ”اگر ایک اور لاک ڈاؤن آیا تو ان کمپنیوں کا بچنا مشکل ہو جائے گا۔‘‘
جرمنی کے وزیر صحت نے ستمبر کے شروع میں ایک بیان میں کہا کہ انہیں پوری امید ہے کہ اس کی نوبت نہیں آئے گی۔ البتہ انہوں نے شہریوں پر زور دیا کہ اس کا بڑا دارومدار اس بات پر ہوگا کہ لوگ خود کتنی احتیاط کرتے ہیں۔
فی الحال ایسے اشارے نہیں کہ جرمن حکام دوسرے لاک ڈاؤن پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر مخصوص علاقوں میں کیسز زیادہ بڑھے تو ان علاقوں میں مقامی نوعیت کی سخت پاندیاں لگائی جا سکتی ہیں۔ جرمنی میں کورونا سے متعلق سینیئر ڈاکٹروں نے لوگوں کو احتیاط بڑھانی ہوگی اور فی الحال وہ یہ مان کر چلیں کے ابھی کافی عرصے تک انہیں ماسک پہننے رکھنا ہے۔
جرمنی کے برعکس برطانیہ میں صورتحال زیادہ خراب ہے۔ وہاں اس وبا کے دوران اب تک 42000 لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ انفیکشنز میں پھر اضافہ ہو رہا ہے اور ہسپتالوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔
صورتحال کے پیش نظر پچھلے ہفتے سے حکومت نے سماجی دوری سے متعلق پابندیاں دوبارہ لاگو کرنے شروع کر دی ہیں۔ برمنگھم، گلاسگو اور دیگر بڑے شہروں میں لوگوں کو ایک دوسرے کے گھروں میں جا کر بیٹنھے کی اجازت نہیں۔ کھلے علاقوں میں بھی لوگوں کے اکھٹے ہونے پر جزوی پاندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔
برطانیہ کے سائنسی ماہرین نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اکتوبر میں اسکولوں کی چھٹیوں کے دوران دو ہفتے کا لاک ڈاؤن لگانے پر غور کرے۔ برطانیہ کے وزیر صحت نے کہا ہے کہ برطانیہ کو نازک صورتحال کا سامنا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ،”اگر لوگوں نے احتیاطی ہدایات کو نظرانداز کیا تو حکومت کو مجبوراﹰ مزید سخت اقدامات کرنے پڑیں گے۔‘‘