فرانس (جیوڈیسک) اپنی پوری تاریخ میں مہاجرین کے لئے دروازے وا رکھنے پر فخر کرنے والا امریکہ، نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دستخط شدہ فیصلے پر حیرت زدہ ہے۔
عراق، لیبیا، شام، ایران، سوڈان اور یمن کے مسلمان شہریوں کے امریکہ میں داخلے کی ممانعت پر مبنی فیصلے کا اطلاق شروع ہو گیا ہے۔
فیصلے کی وجہ سے ان ممالک کی طرف سے امریکہ کے لئے متوقع پروازیں روک دی گئی ہیں۔
فیصلے کے اطلاق پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تہران انتظامیہ نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ غیر منطقی اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہے۔
ایران کی وزارت خارجہ نے فیصلے کو حقارت آمیز قرار دیا ہے اور جوابی کاروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔
روزنامہ نیویارک ٹائمز نے بھی کہا ہے کہ فیصلے پر دستخط ہونے کے دوران ائیر پورٹوں پر موجود مسلمانوں کو حراست میں لے لیا گیا۔
اس کے علاوہ آنے والے دنوں میں مذکورہ ممالک کے مسلمانوں کی امریکہ کے سفر کے لئے خریدی گئی ٹکٹوں کو بھی منسوخ کر دیا گیا ہے۔
دوسری طرف ٹرمپ کے اس فیصلے کے خلاف ردعمل میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
امریکن سول آزادیوں کی یونین اور قانون دانوں کے تشکیل کردہ گروپ ٹرمپ کے فیصلے کے خلاف دعوی دائر کرنے کی تیاریوں میں ہیں۔
فرانس کے صدر فرانسووا اولاند نے بھی کہا ہے کہ یورپ کو ٹرمپ کو سخت جواب دینا چاہیے۔
واضح رہے کہ ٹرمپ کے فیصلے کے مطابق مذکورہ مذکورہ 7 مسلمان ممالک کے شہریوں کو 90 دن تک ویزہ نہیں دیا جائے گا۔
فیصلے کی رُو سے امریکہ میں مہاجرین کے قیام کے امور کو بھی کم از کم 120 دن کے لئے روک دیا گیا ہے۔
مذکورہ پابندیاں ان 7 ممالک سے آ کر امریکہ میں مستقل مقیم ہونے والے اور گرین کارڈ ہولڈر مسلمانوں پر بھی لاگو ہوتی ہیں تاہم پابندیاں ،مذکورہ ممالک سے آنے والے اور دوہرے پاسپورٹ کے حامل، امریکی شہریوں کا احاطہ نہیں کریں گی۔
ائیر پورٹ پر پیش آنے والی افراتفری اور مختلف ممالک سے ملنے والے ردعمل کے جواب میں وائٹ ہاوس سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پابندی صرف 7 مسلمان ممالک پر لگائی گئی ہے اسے عمومی طور پر مسلمانوں پر پابندی کے طور پر قبول کیا جانا مضحکہ خیز ہے۔