یورپ میں کووڈ ویکسین کے خلاف مظاہروں کی حقیقت کیا ہے

Protest

Protest

جرمنی (اصل میڈیا ڈیسک) یورپی ممالک میں حکومتوں نے کووڈ انیس کی نئی لہر کے تناظر میں پابندیوں کا نفاذ کر دیا ہے۔ ان پابندیوں کے خلاف مظاہرے بھی بڑھ گئے ہیں۔ ان میں شریک مظاہرین میں قدرِ مشترک کیا ہے؟

یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں کووڈ انیس کے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور اس کی روک تھام کے لیے مختلف پابندیوں کا نفاذ بھی کر دیا گیا ہے۔ ان پابندیوں اور حفاظتی اقدامات میں بعض پیشوں سے وابستہ افراد کے لیے ویکسینیشن لازمی قرار دے دی گئی ہے۔ اسکولوں میں ماسک پہننا بھی لازمی ہے۔ ان اقدامات سے ہر کوئی خوش نہیں ہے۔ ہزاروں افراد مختلف یورپی شہروں میں مظاہروں میں شریک ہوئے۔

جرمنی اور اس کے ہمسایہ ملکوں میں لوگ ان حکومتی پابندیوں کے اقدامات پر برہم اور خفا ہیں۔ ویانا کی پولیس کے مطابق پابندیوں کے خلاف ایک احتجاج میں چالیس ہزار کے قریب لوگ شریک ہوئے۔ کئی جگہوں پر مشتعل مظاہرین اور پولیس میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔

گزشتہ ویک اینڈ پر برسلز میں قریب آٹھ ہزار لوگ پابندیوں کے خلاف مظاہرے میں شریک ہوئے۔ اس شہر میں بھی پولیس کے ساتھ مظاہرین کی جھڑپیں ہوئیں۔ لکسمبرگ میں مظاہرین نے کرسمس مارکیٹ پر دھاوا بول دیا کیونکہ اس میں صرف ویکسین شدہ افراد داخل ہو سکتے تھے۔ نیدرلینڈز کے مختلف شہروں میں بھی مظاہرے ہوئے۔

جرمنی کے مختلف علاقوں میں صدائے احتجاج بھی بلند کی گئی۔ جرمن ریاست سیکسنی میں مجمع پر پابندی عائد ہے۔ ایسا تاثر ہے کہ لوگوں کے مظاہرے کی منصوبہ بندی انتہائی دائیں بازو کے گروپوں نے کی۔ گزشتہ جمعے سیکسنی میں ٹارچ بردار مظاہرین ریاستی وزیر صحت کے گھر کے باہر جمع ہوئے تھے۔

کووڈ مظاہروں میں مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے اور سوچ کے افراد شریک رہے۔ ان میں سیاسی بے چینی کے حامل افراد کے ساتھ ریاست مخالفین بھی شامل تھے۔ اسی طرح ویکسین مخالفین بھی مظاہروں میں شریک تھے۔

جرمن سرکاری ٹیلی وژن زیڈ ڈی ایف کے پروگرام میں بیلجیم کے شہر لیوون میں قائم کیتھولک یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر مارک ہوگہے کا کہنا ہے کہ کووڈ مظاہروں میں مختلف سماجی گروپوں کے افراد شامل ہیں اور ان کے اپنے اپنے نظریات ہیں۔ جرمنی میں بھی صورت حال کم و بیش ایسی ہے۔

ایک ماہر عمرانیات ژوہانس کِیس کا خیال ہے کہ یہ مایوس افراد کے گروپ ہیں جو کووڈ انیس کی حکومتی پالیسیوں پر شاکی ہیں اور جمہورت سے بھی نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ کِیس کے مطابق ان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو انسانی بشری رویوں کے بھی مخالف ہیں اور جدیدیت سے بھی دور بھاگنا چاہتے ہیں، انہوں نے ان مظاہروں کے پسِ پردہ انتہائی دائیں بازو کے فعال ہونے کے نظریات سے پوری طرح اتفاق نہیں کیا۔ کِیس کے مطابق انتہائی دائیں بازو کے افراد ایسے مظاہروں میں پہلے دن سے شامل ہیں۔

ژوہانس کیس کا کہنا ہے کہ ایسے مظاہرے مختلف ممالک کے سیاسی کلچر کے تناظر میں بھی ہیں، جیسا کہ پروٹیسٹنٹ بھی مظاہروں کے حق میں ہیں لیکن وہ شور شرابے کے خلاف ہیں اور آسٹریا میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت فریڈم پارٹی بھی ایسی احتجاجی ریلیوں کو ہوا دے رہی ہے۔ بازل یونیورسٹی کی ایک ریسرچ کے مطابق انتہائی دائیں بازو کی آلٹر نیٹیو فار ڈوئچ لینڈ جنوب مغربی جرمنی میں ہونے والے مظاہروں کے پسِ پردہ ہے۔

ماہرِ عمرانیات ژوہانس کیس کا خیال ہے کہ یہ مظاہرے کورونا حفاظتی اقدامات کی مخالفت سے زیادہ ہیں۔ ان کے مطابق فرانس میں ایسی احتجاجی ریلیاں صرف کورونا کا نام استعمال کر رہی ہیں اور حقیقت میں یہ ماکروں اور ان کی اندازِ سیاست کے خلاف ہیں۔

کیس کے مطابق نیدرلینڈز میں یہ مظاہرے حکومت کی سماجی پالیسیوں پر تنقید کا نتیجہ ہے۔ کیس کا یہ بھی کہنا ہے کہ سیکسنی میں ایسے مظاہرے حقیقت میں لوگوں کا سیاست اور جمہوریت کے جادو پر عدم اطمینان کا اظہار ہے کیونکہ ان لوگوں کا سیاستدانوں پر اعتماد صفر کے برابر ہے۔ ایک اور ماہر عمرانیات ایکسل زالہائزر کے مطابق ایسے مظاہروں کے ذریعے دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے ریاست مخالف بیانیے کو ترویج دی ہے۔

دوسری جانب جرمن ریاستوں کے وزرائے داخلہ نے بھی واضح کیا ہے کہ یہ مظاہرے بتدریج بنیاد پرستانہ ہوتے جا رہے ہیں۔ ژوہانس کِیس نے متنبہ کیا ہے کہ اگلے ہفتوں میں صورتِ حال خراب سے خراب تر ہو سکتی ہے اور غیرقانونی مظاہروں کے خلاف تادیبی اقدام وقت کی ضرورت ہیں۔ انہوں نے ایسے مظاہروں میں شریک ہونے والوں پر جرمانہ عائد کرنے میں تسلسل پیدا کرنے کو بھی اہم قرار دیا ہے۔