یورپ (اصل میڈیا ڈیسک) عسکری اخراجات اور اسلحے کی بین الاقوامی تجارت پر نظر رکھنے والے سویڈش ادارے ‘سپری’ کے مطابق یوکرین میں جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی یورپی ملکوں میں بڑی تعداد میں ہتھیاروں کی درآمدات شروع ہوچکی تھی۔
یورپ میں ہتھیاروں کی درآمدات گزشتہ پانچ برسوں کی اونچی ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ اسٹاک ہوم پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری)’ کے مطابق گوکہ روس کے یوکرین پر حملے کے بعد یورپی ممالک اپنی فوجی صلاحیتیوں میں اضافہ کرنے پر زور دے رہے ہیں لیکن اعدادوشمار اور دیگر حقائق سے پتہ چلتا ہے کہ جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی یورپ ہتھیاروں کی درآمد کا ایک بڑا مرکز بن چکا تھا۔
سپری کی رپورٹ کے مطابق سن 2017 سے سن 2021 کے درمیان گزشتہ پانچ سال کے مقابلے میں دنیا بھر میں ہتھیاروں کی تجارت میں 4.6 فیصد کی کمی دیکھی گئی لیکن اس کے برعکس یورپ میں ہتھیاروں کی خریداری میں 19 فیصد کا اضافہ ہوا۔
سپری کی اس رپورٹ کو تیارکرنے والوں میں سے ایک پیٹر وائزمین کا کہنا ہے کہ ہتھیاروں کی خریداری کے لحاظ سے یہ دنیا کے تمام خطوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ ”یورپ نیا مرکز بن گیا ہے۔ یہ تشویش ناک ہے۔ ہم اپنے فوجی اخراجات میں اضافہ کرنے والے ہیں۔ یہ اضافہ معمولی نہیں بلکہ بہت زیادہ ہوگا۔ ہمیں نئے ہتھیار چاہییں اور ان کا بڑا حصہ درآمد کیا جائے گا۔ جو یورپی ملکوں کے علاوہ امریکہ سے آئے گا۔‘‘
سپری میں یورپی سکیورٹی کے پروگرام ڈائریکٹر ایان انتھونی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نئے اعدادو شمار سن 2014 میں روس کی جانب سے کریمیا پر قبضہ کرنے اور ڈونباس خطے میں روسی جارحیت کے بعد یورپ کے خدشات کا مظہر ہیں۔”نیٹو کے اتحادیوں نے اس کے بعد اپنے دفاعی بجٹ کو کم کرنے کے رجحان کو پلٹ دیا۔‘‘
یورپ کے کئی ملکوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی فوجی صلاحیتوں پر زیادہ خرچ کریں گے۔ ان میں یورپی یونین کی سب سے بڑی معیشت جرمنی بھی شامل ہے جس نے حال ہی میں اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لاتے ہوئے دفاعی اخراجات میں اضافے کا اعلان کیا تھا۔ ڈنمارک اور سویڈن نے بھی ایسے ہی اعلانات کیے ہیں۔
انتھونی کا کہنا تھا،”آپ کو تعداد کی شکل میں جو کچھ دکھائی دے رہا ہے وہ دراصل بڑی حد تک اسی فیصلے کے نفاذ کا عکاس ہے۔‘‘
یوکرین پر روس کے فوجی حملے نے یورپی ملکوں کے خوف میں اضافہ کردیا ہے اور وہ ایف 35 جیسے جنگی طیارے، میزائل اور گولہ بارود پر خرچ میں اضافہ کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔
ویزمین کہتے ہیں، ”ان میں سے زیادہ ترچیزیں وقت طلب ہیں۔ ان کا ایک مکمل طریقہ کار ہوتا ہے جن پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ فیصلہ کرنا، آرڈر دینا، تیار کرنا وغیرہ۔ ان سب میں ایک دو سال تو لگ ہی جاتے ہیں۔‘‘
ویزمین کا کہنا ہے کہ کریمیا پر روس کے قبضے کے بعد ہتھیاروں کی خریداری کے سلسلے میں یورپ کے رجحان میں جو تبدیلی آئی اس کی وجہ سے گزشتہ پانچ برس میں ہتھیاروں کی عالمی تجارت میں یورپ کا حصہ دس فیصد سے بڑھ کر 13 فیصد ہوگیا اور آنے والے دنو ں میں اس میں مزید اضافہ ہوگا۔
ہتھیاروں کی خریدوفروخت کے معاہدوں کے حوالے سے جو رازداری برتی جاتی ہے اس کی وجہ سے درست اعدادو شمار حاصل کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا میں ہتھیاروں کا سالانہ کاروبار 100 ارب ڈالر سے زیادہ کا ہے۔ روسی ہتھیاروں کے ایکسپورٹ میں گراوٹ
دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہتھیار فروخت کرنے کے لحا ظ سے روس امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ لیکن اس کے ہتھیاروں کے فروخت میں 26 فیصد کی گراوٹ آئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بھارت اور ویت نام کی طرف ہتھیاروں کے آرڈر میں کمی ہے۔ سپری کے ماہرین کا تاہم کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں بھارت روس سے ہتھیاروں کی خریداری میں اضافہ کرے گا۔
جرمنی دنیا کا پانچواں سب سے بڑا اسلحہ ایکسپورٹر ہے لیکن پچھلے پانچ برسوں کے دوران یہاں ہتھیاروں کے ایکسپورٹ میں 19فیصد کی کمی آئی ہے۔ حالانکہ اسی مدت کے دوران ہتھیاروں کے ایکسپورٹ میں امریکہ میں 14فیصد اور فرانس میں 59 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
سپری کے مطابق ایشیا اور اوشیانا گزشتہ پانچ برسوں میں ہتھیاروں کے سب سے بڑے امپورٹر رہے ہیں اور تمام ہتھیاروں کا سب سے زیادہ تقریباً 43 فیصد انہیں ملکوں میں گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا کے سب سے بڑے ہتھیار درآمد کنندگا ن میں بھارت، آسٹریلیا، چین، جنوبی کوریا، پاکستان اور جاپان ہیں۔
مشرق وسطیٰ ہتھیاروں کی درآمدات کا دوسری سب سے بڑی منڈی رہا اور مجموعی برآمدات کا 32 فیصد اسی علاقے میں پہنچا، جو گزشتہ پانچ برس میں تین فیصد کا اضافہ ہے۔
سپری کے ایان انتھونی کے مطابق روس کے یوکرین پر حملے کا اثرآنے والے دنوں میں اس کے ہتھیاروں کی تجارت پر بھی پڑے گا۔
’’یوکرین کی جنگ نے یورپ کے سیاسی فوجی جغرافیہ کو پہلے ہی تبدیل کردیا ہے۔ اب کسی جامع سکیورٹی نظریے میں روس کے تعاون کے حوالے سے کسی کو کوئی غلط فہمی نہیں رہ گئی ہے۔ روس غیر معینہ مستقبل کے لیے شراکت دار نہیں ہوسکتا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ یوکرین میں جنگ کا نتیجہ اس بات کو طے کرے گا کہ نیٹو اور روس کے درمیان رابطے کی نئی لائن کہاں کھینچی جائے گی۔