کیا یورپی سرحدی پولیس مہاجرین کو پیچھے دھکیل رہی ہے؟

Police

Police

یورپ (اصل میڈیا ڈیسک) مغربی یورپ پہنچنے والے مہاجرین نے الزام لگایا ہے کہ یورپی سرحدی پولیس ‘فرنٹیکس‘ مہاجرین کو واپس دھکیل دیتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یہ پولیس بلقان علاقے میں اس عمل میں مصروف ہے۔

ہوپ بیکر ‘ویو سالونیکی‘ نامی امدادی پراجیکٹ کی انتظامی امور کی نگران ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ایسے بیانات سن چکی ہیں، جن میں مہاجرین کا کہنا ہے کہ یورپی سرحدوں کی نگران پولیس فرنٹیکس بھی مہاجرین کو سرحدوں سے واپس دھکیلنے سے گریز نہیں کرتی۔ ہوپ بیکر کا امدادی پراجیکٹ یورپ پہنچنے والے مہاجرین کو خوراک، طبی امداد اور قانونی مدد فراہم کرتا ہے۔

ہوپ بیکر نے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ایسا ممکن ہے کہ فرنٹیکس ‘پُش بیکس‘ میں ملوث ہو۔’پُش بیکس‘ سے مراد یہ ہے کہ کسی مہاجر کو یورپی ملک سے پیچھے دھکیل دینا۔ امدادی ورکر بیکر کا کہنا ہے کہ ایسا صرف سرحدوں میں نہیں بلکہ اندرون ملک بھی ہوا ہے اور اس باعث مغربی یورپ پہنچنے والے مہاجرین یونانی سکیورٹی اہلکاروں اور دوسرے حکام کے ساتھ رابطہ استور کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

کئی دوسری امدادی تنظیموں کا بھی کہنا ہے کہ شمالی مقدونیہ اور البانیہ کی سرحدوں پر’پُش بیکس‘ کے کئی واقعات کو رپورٹ کیا گیا ہے۔

فرنٹیکس نے’پُش بیکس‘ کے الزامات کی تردید کی ہے۔ اس یورپی ادارے کے ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یہ بات مصدقہ شواہد کی عدم موجودگی میں عام کی گئی ہے اور یہ بے بنیاد الزام ہے۔ ترجمان نے یہ بھی کہا کہ تنظیم اپنی ذمہ داریوں سے بخوبی واقف ہونے کے ساتھ ساتھ یورپی چارٹر برائے انسانی حقوق سے آگاہ بھی ہے اور ڈیوٹی کے دوران اس کا پوری طرح احترام بھی کیا جاتا ہے۔

مذکورہ عرصے کے دوران یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے باشندوں نے جمع کرائیں۔ یورپی ممالک میں عام طور پر شامی شہریوں کو باقاعدہ مہاجر تسلیم کیے جانے کی شرح زیادہ ہے۔ یونان میں بھی شامی مہاجرین کی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کی شرح 99.6 فیصد رہی۔

دوسری جانب ہوپ بیکر کا یہ بھی کہنا ہے کہ مجموعی صورت حال پیچیدہ اور مبہم ہے، جس میں ایسے الزامات کی تردید یا تصدیق کرنا بھی ایک مشکل عمل ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ البانوی سرحدوں پر فرنٹیکس غیر معمولی طور پر سرگرم ہے۔ بلغاریہ، یونان اور ترکی کی سرحدوں پر’پُش بیکس‘ روزانہ کی بنیاد ہو رہا ہے۔

شمالی یونانی شہر سالونیکی میں قائم امدادی پراجیکٹ کی معاون کار ہوپ بیکر کا کہنا ہے کہ سالونیکی چند ماہ قبل تک مہاجرین دوست شہر تھا لیکن جنوری سن 2020 میں نافذ ہونے والے ایک انتہائی سخت قانون نے مہاجرین کے لیے ساری صورت حال تبدیل کر دی ہے۔ یہ قانون سن 2019 میں قائم ہونے والی قدامت پسند حکومت نے لاگو کیا، جس کے وزیر اعظم کیریاکوس مِٹسوٹاکیس ہیں۔ اس قانون کے تحت حکام کو سیاسی پناہ کے کسی بھی درخواست گزار کو اٹھارہ ماہ تک کے لیے جیل بھیجنے کا اختیار مل گیا ہے اور وہ اس مدت میں اتنی ہی توسیع بھی کر سکتے ہیں۔