جرمنی (جیوڈیسک) یورپی یونین کے راہنماؤں نے ترکی کے صدر رجب طیب اردوان کو جرمنی اور پھر نیدرلینڈز پر “فسطائیت” اور “نازیوں کی پیروی” کرنے کے الزامات عائد کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ترک حکومت کی طرف سے یورپی ملکوں میں ریلیوں کے انعقاد کو روکنے جانے پر صدر اردوان خاصے برہم ہیں اور اپنے حکومت کے ایک وزیر کو نیدرلینڈز سے بے دخل کرنے اور ایک وزیر کو ریلی سے خطاب سے روکے جانے پر انھوں ڈچ حکومت کو اس کے نتائج بھگتنے کی دھمکی بھی دی تھی۔
اس سارے معاملے پر حالیہ دنوں میں ترکی اور یورپی ملکوں کے درمیان تعلقات میں تناؤ دیکھا جا رہا ہے۔
انقرہ ترکی میں صدر کے اختیارات سے متعلق ہونے والے ریفرنڈم سے قبل یورپی ملکوں میں آباد ترک باشندوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے وہاں ریلیاں منعقد کر رہا ہے۔
نیدرلینڈز کے وزیراعظم مارک روٹے نے اردوان کے بیان کو “ناقابل قبول” اور نازیوں کی پیروی کے بیان کو “ایک پاگل بیان” قرار دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ “ترکی ایک پر افتخار قوم ہے، نیدرلینڈز ایک باوقار قوم ہے۔ ہم ایسی دھمکیوں اور بلیک میل کے زیر اثر تعلقات استوار نہیں رکھ سکیں گے۔”
جرمنی کے وزرا کی طرف سے بھی ترکی سے متعلق سخت بیانات سامنے آئے ہیں۔
گو کہ جرمنی کی چانسلر آنگیلا مرکل یہ کہہ چکی ہیں کہ ان کی حکومت ترک وزیروں کی جرمنی میں ریلیوں کی مخالفت نہیں کریں گی لیکن تاوقتیکہ یہ “باقاعدہ طے شدہ ہوں”، لیکن وزیر داخلہ ٹومس دی میزیئر کا کہنا ہے کہ جرمنی میں ترک سیاسی اجتماعات کی مخالفت کرتے ہیں۔
مقامی ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ “ترک مہم کا جرمنی میں کوئی کام نہیں ہے۔”
جرمنی کے وزیر خارجہ سگمار گبریئل کا کہنا تھا کہ انھیں توقع ہے ترکی “اپنے حواس میں واپس آ جائے گا۔” وزیرخزانہ اولگینگ شائیوبل نے کہا کہ ترکی نے “مزید تعاون کی بنیاد کو تباہ کر دیا ہے۔”
آسٹریا کے وزیر خارجہ سبسچیئن کرز کا کہنا تھا کہ اردوان کے “یہاں ریلیاں کرنے کا خیرمقدم نہیں کیا جائے گا کیونکہ اس سے اتحاد کو نقصان اور تفریق کا خطرہ پیدا ہو سکتا ہے۔
ڈنمارک کے وزیراعظم لارس لوکی راسموسن کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں ترکی میں “جمہوری اصول شدید دباؤ میں ہیں۔” انھوں نے اردوان کے ساتھ طے شدہ ملاقات ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ “ہالینڈ پر ترکی کے تازہ وار اور اس ملاقات کو علیحدہ علیحدہ نہیں دیکھا جا سکتا۔”