رپورٹ (جیو ڈیفنس) گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان سے یورپ اور امریکہ کیلئے مختلف شعبہ جات کی آڑ میں انسانی سمگلنگ کی جا رہی ہے۔ جن میں صرف چند ہی کو ایف۔ آئی۔ اے۔ گرفتار کرنے میں کامیاب ہوسکی۔
پحھلے پندرہ سالوں سے لاہور، کراچی اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے معروف پرموٹرز نے مبینہ طور پر تھیٹر ڈراموں اور میوزیکل کنسٹرٹ کی آڑ میں سادہ لوح افراد سے لاکھوں روپے وصول کرکے انہیں مختلف یورپی ممالک میں سمگل کیا۔
2013 میں 6 افراد سے تیرہ تیرہ لاکھ روپے وصول کرنے کے بعد لاہور بادشاہ کرکٹ ٹیم کے نام پر سپین پہنچایا گیا۔ 2013 سے 2015 تک صحافت کی آڑ میں میں پاکستان سے سینکڑوں افراد صحافت کی آڑ میں یورپ میں داخل ہوئے۔ جن میں اکثر جعلی صحافی ناروے، اور انگلینڈ میں داخل ہوکر روپوش ہوگئے۔
گزشتہ چند ہفتوں میں ایف۔ آئی۔ اے۔ نے جونیئر فٹ بال ٹیم کی آڑ میں انسانی سمگلنگ کی کوشش ناکام بنائی گی۔ جعلی کھلاڑیوں سے بارہ بارہ لاکھ روپے لے کر امریکہ بھیجا جارہا تھا۔ چند دن پہلے امریکا جانے کی کوشش میں 5 رکنی جعلی میڈیا ٹیم کو گرفتار کیا گیا۔
حکومت کی طرف سے سختی کی وارنگ اور مختلف اداروں کے چھاپوں اور گرفتاریوں کے باوجود غیرقانونی انسانی سمگلنگ کا دھندہ ختم ہونے کی بجائے تاحال جاری ہے۔
گزشتہ ایک سال سے فرانس میں بھی پاکستانی کمیونٹی کے چند افراد نے، میڈیا ایوارڈ کی آڑ میں انسانی سمگلنگ کیلئے کوششوں میں ہیں، تاکہ قانون کے شکنجوں سے بچ کر غیر قانونی کاموں کو آسانی سے انجام دے سکیں۔
پاکستان کے یونی فائڈ میڈیا کلب کی جانب فرانس میں ایک (یورپین پاکستانی میڈیا ایچومنٹ ایوارڈ اینڈ کانفرنس) تقریب کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ جس میں پاکستان کے چار نامور صحافیوں کے علاوہ 50 نئے صحافیوں کو فرانس میں صحافتی خدمات پر میڈیا ایوارڈ سے نوازا جائے گا۔
حقیقت میں، یورپین پاکستانی میڈیا ایچومنٹ ایوارڈ اینڈ کانفرنس کے نام پر انسانی سمگلنگ کے گھنوانے کاروبار کیلئے ڈرامہ رچایا جا رہا ہے، تاکہ آسانی سے فرانس کے ویزے حاصل کیے جا سکیں۔ اس ڈونگ کو فرانس میں پاکستانی کمیونٹی کے چند ایسے افراد رچا رہے ہیں، جن میں سے اکثر کسی نا کسی جرم میں فرانس میں جیل کاٹ چکے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی فرانس کا سینئر نائب صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی یورپ کا کوآرڈینیٹر کامران یوسف گھمن کریڈیٹ کارڈ کے جرم میں فرانس کی جیل کاٹ چکا ہے اور جو سیاست کے ساتھ ساتھ فرانس میں الیگل کاغذات پر الیگل ورکرز کے ساتھ کاروبار کرتا ہے کہ علاوہ مزید 6 افراد اس انسانی سمگلنگ کے گھنوانے کاروبار میں برابر کے شریک ہیں۔
انسانی سمگلنگ کے گھنوانے کاروبار کو آسان بنانے کیلئے ان افراد نے فرانس میں فیشن شو، پریس کلب، کمیونٹی کے شوشل اور ثقافتی پروگرامز کی آڑ میں جعلی صحافی اور جعلی شوشل ورکرز تیار کر دیئے ہیں۔ تاکہ فرانچ کمیونٹی کے ساتھ تعلقات بنا کر فائدہ اٹھا جاسکے۔ جس میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوگئے ہیں۔
پچھلے کئی سالوں سے فرانس میں مقیم جعلی صحافی پاکستانی کے مقامی اخبارات اور ٹی وی چینلز کو پیسے دے کر کسی دوسرے سے لکھوائی گئی، خبریں، کالم اور رپورٹ اپنے ناموں پبلش کروا رہے ہیں۔
2015 میں ہونے والی کانفرنس COP21 میں ایسے ایلیگل افراد کو صحافی بنا کر پیش کیا گیا، جو غیر قانونی طور پر فرانس میں رہائش پزیر تھے۔ اس کے علاوہ، COP21 میں شرکت کرنے والے اکثر افراد جو فرانسیسی کیا، انگریزی بھی نہیں سمجھتے تھے، بلکہ اپنی قومی زبان لکھنے سے بھی قاصر تھے کی شرکت کروائی گی۔
فرانس میں پاکستانیوں کے ایک بہت بڑے مافیا نے ڈیرا داری نظام بنایا ہوا ہے، جہاں ان کے ذاتی کارندے 99 فیصد سے زائد جرائم کے فیصلے جرگہ کے ذریعے کرتے ہیں۔ اگر کوئی ان کے خلاف آواز اٹھاتا ہے تو انہیں سنگین نتائج کی دھمکیوں سمیت مقدمات میں الجھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
سال 2009 میں، پاکستان کے اخبار خبریں کے نمائندہ زاہد مصطفی اعوان کو فرانس میں مافیا کے بارے میں صرف چند لائنز کی خبر اخبار میں شائع کرنے پر، گجرات میں اس کے والد کو دہشتگردوں سے بھرے بازار میں پیٹوایا گیا۔ اس کے علاوہ پولیس کو پیسے دے کر مختلف جھوٹے مقدمات میں گھسیٹا گیا۔
فرانس میں غیر قانونی کاروباروں کے خلاف سخت ترین قانون ہونے کے باوجود، انسانی سمگلنگ اور فراڈ سے حکومت سے ٹیکس لینا، جیسے تمام کالے کاروباروں کا فرانس میں پاکستانی کمیونٹی کے اندر جاری رہنا ایک سوالیا نشان ہے۔
جب جیو اردو نے میڈیا ایوارڈ کے خوالہ سے پاکستان کے یونی فائڈ میڈیا سے بات کی تو ان کا کہنا تھا، کہ ہمارا ادارہ ایک معتبر ادارہ ہے، جس کا کسی بھی قسم کی انسانی سمگلنگ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
یاد رہے، 24 مئی 2016 سے میڈیا ایوارڈ، ٹیکس فراڈ، جعلی پاسپورٹ اور کاغذات پر مشتعمل فائل فرانس کی عدالت میں زیر التوا ہے۔