یورپی پارلیمان: کاپی رائٹس قانون میں متنازعہ اصلاحات منظور

Protest

Protest

یورپ (جیوڈیسک) یورپی پارلیمان کے ارکان نے اکثریتی رائے سے یورپی کاپی رائٹس قانون میں جامع لیکن متنازعہ اصلاحات کی منظوری دے دی ہے۔ اس سلسلے میں مجوزہ مسودے میں کئی بار ترمیم کی گئی، جس کے بعد یورپی پارلیمان نے اس کی منظوری دے دی۔

اس ترمیمی قانون کے ساتھ یورپی یونین کے کاپی رائٹس سے متعلق جس قانون کو جدید تر بنا دیا گیا ہے، وہ بیس سال پرانا تھا اور یورپی پارلیمان میں چھبیس مارچ کو ہونے والی رائے شماری سے کچھ دیر پہلے تک بھی یہ بات قطعی غیر یقینی تھی کہ آیا یہ قانونی بل ارکان کی اکثریت کی حمایت حاصل کر سکے گا۔

دی اکانومسٹ کے تحقیقی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئندہ پانچ برسوں کے لیے یہ تینوں ممالک ایک جتنے نمبر حاصل کر کے مشترکہ طور پر پہلے نمبر پر ہیں۔ سن 2013 تا 2017 کے انڈیکس میں فن لینڈ پہلے، سویڈن دوسرے اور آسٹریلیا تیسرے نمبر پر تھا۔

اس مسودہ قانون پر رائے شماری میں اسٹراسبرگ کی پارلیمان کے 348 ارکان نے اس کی حمایت کی جبکہ 274 ارکان نے اس کے خلاف ووٹ دیا اور 36 ارکان نے اپنی رائے محفوظ رکھی۔ یورپی کاپی رائٹس قانون میں یہ اصلاحات بہت زیادہ متنازعہ بھی تھیں۔

اس قانونی بل کے خلاف گزشتہ دنوں کے دوران یورپی یونین کے رکن 28 ممالک میں سے 20 سے زیادہ ریاستوں میں کئی ملین شہریوں کی طرف سے بیسیوں بڑے بڑے شہروں میں بھرپور احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے تھے۔ یورپی پارلیمان کی طرف سےمنظوری کے بعد اب اس بلاک کی رکن ریاستوں کو انفرادی طور پر بھی اس نئے قانون کی منظوری دینا ہو گی۔

اس نئے قانون کا مقصد ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر کاپی رائٹس کا اس طرح تحفظ کرنا ہے کہ مختلف اشاعتی اور نشریاتی اداروں اور فنکاروں کے کاروباری حقوق اور حقوق دانش کی عوامی سطح پر نفی کو روکا جا سکے۔ اس قانون کی شق نمبر 11 کے تحت پوری یورپی یونین میں اب ایک ایسا ضابطہ نافذ ہو جائے گا، جس کے تحت کاپی رائٹس کے زمرے میں آنے والی تخلیقات کا مکمل کاروباری تحفظ کیا جا سکے گا۔

اس دوران ایسی جو تخلیقات اب تک گوگل یا دیگر بڑے آن لائن پلیٹ فارمز پر پہلے سے شائع ہو چکی ہیں، ان مضامین، موسیقی یا تصویروں وغیرہ کے لیے اب متعلقہ پلیٹ فارمز کو کاپی رائٹس کے حامل افراد اور اداروں کو ادائیگیاں کرنا ہوں گی۔

اس کی ایک مثال جرمنی میں اشپیگل نامی جریدے کے آن لائن ایڈیشن کی طرف سے کئی سال سے لڑی جانے والی وہ قانونی جنگ بھی ہے، جو گوگل کے خلاف تھی۔ اس میں اشپیگل آن لائن کا موقف تھا کہ گوگل کی طرف سے اس کی ویب سائٹ پر خبروں کے لیے اس ادارے کا تحریری مواد تو استعمال کیا جاتا ہے، لیکن کوئی ادائیگی نہیں کی جاتی۔

اس کے علاوہ اب اس نئے یورپی کاپی رائٹس قانون کے آرٹیکل 17 (گزشتہ قانون کے آرٹیکل 13) کے تحت گوگل کی ذیلی کمپنی یوٹیوب، فیس بک کی ذیلی کمپنی انسٹاگرام اور GitHub جیسی کمپنیوں کو اس بات کو بھی یقینی بنانا پڑے گا کہ ان پلیٹ فارمز کے صارفین اپنی طرف سے جو مواد اپ لوڈ کرتے ہیں، اس میں کاپی رائٹس کی کوئی خلاف ورزی نہ کی گئی ہو۔

ایسی کسی بھی ممکنہ خلاف ورزی کو روکنے کے لیے ان بڑے بڑے آن لائن پلیٹ فارمز کو اپنے اپنے تکنیکی نظاموں میں ایسے آن لائن فلٹرز لگانا پڑیں گے، جو کاپی رائٹس کی کسی بھی ممکنہ خلاف ورزی کا اپ لوڈ سے پہلے ہی پتہ چلا سکیں اور ایسے کسی بھی اپ لوڈ کو روک سکیں۔

کئی ملین کی تعداد میں عام صارفین اور سینکڑوں کی تعداد میں چھوٹے چھوٹے یورپی آن لائن پلیٹ فارمز اس نئے اور سخت تر کاپی رائٹس قانون کے خلاف اس لیے تھے کہ ان کے بقول ایسے سارے ہی ادارے بہت مہنگے اور نئے آن لائن فلٹرز خریدنے کی سکت نہیں رکھتے تھے۔ دوسری طرف عام صارفین کا کہنا یہ تھا کہ ایسا کرنا اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے کے مترادف ہو گا۔

اس پر یورپی پارلیمان کے ارکان نے اس نئے مسودہ قانون کی منظوری کے ساتھ جو جواب دیا ہے، وہ یہ ہے کہ اظہار رائے کی آزادی ہر کسی کو حاصل ہے، جس کا ہر قیمت پر تحفظ بھی کیا جانا چاہیے، لیکن کسی بھی فنکار، ادارے یا کاپی رائٹس کے مالک فرد یا کمپنی کا بھی یہ قانونی حق ہے کہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بھی ان کے مالیاتی حقوق کا تحفظ کیا جائے اور انہیں ان کے جائز آمدنی سے محروم نہ رکھا جائے۔