یورپ (اصل میڈیا ڈیسک) یورپی یونین کے سربراہی اجلاس میں ایک اضافی دن کے باوجود کورونا ریکوری فنڈ کے معاملے پر اختلافات ختم کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ اتوار کو تیسرے دن بھی ساڑھے سات سو ارب ڈالر کے ایک بڑے ریکوری فنڈ کی بابت اختلاف رائے موجود ہے۔
یورپی یونین کا دو روزہ سربراہی اجلاس گزشتہ روز ختم ہونا تھا، تاہم کورونا ریکوری فنڈ سے متعلق یورپی ممالک میں اختلاف رائے کے تناظر میں اس میں ایک روز کی توسیع کر دی گئی تھی۔ اتوار کو اس اجلاس کے تیسرے روز بھی یورپی رہنما ساڑھے سات سو ارب یورو کے اس بڑے اقتصادی بحالی پیکیج پر بات چیت میں مصروف ہیں۔ اس پیکیج کے ذریعے کورونا وائرس کی وجہ سے بدترین معاشی مسائل کے شکار یورپی ممالک کی مدد کی جانا ہے۔ تاہم سرمایے کی فراہمی، رسائی اور ضوابط کے حوالے سے یورپی رہنماؤں کے درمیان واضح اختلاف رائے پایا جاتا ہے۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے اتوار کے روز اس کانفرنس میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے کہا تھا، ”میں اب بھی یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہم کسی حل تک پہنچ جائیں گے۔‘‘
یہ بات اہم ہے کہ یورپی یونین عالمی وبا کے تناظر میں اقتصادی کسادبازاری کا شکار ہے اور ایسے میں وبا سے شدید متاثرہ ممالک کو بھاری امدادی سرمایے کی ضرورت ہے۔ چانسلر میرکل کا کہنا تھا، ”سبھی نیک نیتی سے کام کر رہے ہیں، مگر ممکن ہے کہ ہم آج کسی نتیجے تک نہ پہنچ پائیں۔‘‘
تاہم آسٹریا کے چانسلر سیباستیان کُرس کے مطابق اس اجلاس میں ڈیل ممکن ہے، تاہم اس کے لیے ابھی کچھ معاملات حل طلب ہیں۔
یورپی یونین کے 27 رکن ممالک کے زیادہ تر رہنما ریسکیو ڈیل سے متعلق ایک فریم ورک کے حق میں ہیں، تاہم ہالینڈ کی قیادت میں چند ممالک ایسے بھی ہیں، جو اسپین اور اٹلی جیسے ممالک کو بھاری سرمایے کی فراہمی کی مخالفت کر رہے ہیں۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کے تناظر میں یورپ بھر میں نافذ کیے جانے والے لاک ڈاؤن کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ یورپی رہنما برسلز میں اس طرح جمع ہوئے ہیں۔
بعض یورپی رہنما اس اجلاس کو یورپی یونین کی بقا کے ساتھ بھی نتھی کر رہے ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ عالمی وبا کی وجہ سے اقتصادیات کو پہنچنے والے غیرمعمولی مضر اثرات نے 70 سالہ یورپی انضمام کو بھی ایک مشکل میں ڈال دیا ہے۔
یونانی وزیراعظم کیریاکوس مِتسوتاکس، جن کا ملک گزشتہ دس برسوں سے قرضوں کے بحران سے نمٹنے میں مصروف رہا ہے، نے کہا کہ یورپ یونین کمزور اور منقسم دکھائی نہیں دینی چاہیے۔
بعض یورپی سفارت کار یہ چہ مگوئیاں بھی کر رہے ہیں کہ یہ اجلاس کل پیر کے روز تک بڑھایا بھی جا سکتا ہے، جب کہ کچھ سفارت کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر رواں اجلاس میں کوئی پیش رفت نہ ہو سکی تو جولائی کے آخر میں مجوزہ یورپی سربراہی اجلاس میں کسی نہ کسی اتفاق رائے تک پہنچا جا سکے گا۔