تحریر : عبدالرزاق یورپی یونین کا حصہ رہنے یا یورپی یونین کو الوداع کہنے سے متعلق منعقد ہونے والے اہم ریفرنڈم کے نتائج کے بعد ڈیوڈ کیمرون نے اعلیٰ سیاسی روایت قائم کر تے ہوے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا۔ برطانوی سرزمین پر منعقدہ اس ریفرنڈم کا مقصد برطانوی عوام کی رائے جاننا تھا کہ برطانیہ یورپی یونین کا حصہ رہے یا کنارہ کش ہو جائے۔ نتائج برآمد ہونے پر اس بات کا انکشاف ہوا کہ برطانوی عوام کی اکثریت یورپی یونین کو بائے بائے کہنے کی حامی ہے۔
چنانچہ ریفرنڈم کے نتائج کی روشنی میں 51.8فیصد لوگوں نے رائے دی کہ برطانیہ کو یورپی یونین سے علیحدہ ہو جانا چاہیے جبکہ 48.2فیصد افراد کے خیال میں برطانیہ کو یورپی یونین کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیے اور اس کا حصہ رہنا چاہیے ۔یوں معمولی برتری سے یورپی یونین سے انخلا کے حامیوں کا پلڑا بھاری رہا۔برطانوی شہریوں کے اس فیصلہ کے بعد ڈیوڈ کیمرون نے ایک پریس کانفرنس کا اہتمام کر کے اپنے عہدے سے مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا اور مذید کہا کہ وہ رواں برس ستمبر تک اپنے عہدے سے الگ ہو جائیں گے۔
یاد رہے برطانیہ نے 1993میں یورپی یونین کو جوائن کیا تھا لیکن تب سے ہی برطانیہ کے بعض بااثر حلقے اس شمولیت کے مخالف تھے ان کاخیال تھا کہ برطانیہ کو یورپی یونین کا حصہ نہیں بننا چاہیے ۔دیر آئید لیکن اب ان کے موقف کو عوامی سطح پر پذیرائی مل گئی ہے اور برطانوی عوام نے یورپی یونین سے الگ ہونے کے ان کے مطالبے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے ۔معیشت کے میدان کے کہنہ مشق تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ برطانیہ کے اس فیصلہ سے وقتی طور پر تو برطانوی معیشت پر دباو آنے کے امکانات ہیں لیکن مستقبل میں اس فیصلہ کے برطانوی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔
European Union
دراصل برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی کی وجہ یہ ہے کہ برطانیہ اپنی سرحدوں پر مکمل کنٹرول چاہتا ہے اس کے علاوہ برطانیہ کا خیال ہے کہ یورپی یونین کے قوانین کا پابند ہونے کی وجہ سے برطانیہ کئی معاملات میں پیچھے رہ گیا ہے ۔ دوسری جانب برطانیہ اپنی سرزمین پر پناہ گزینوں سے بھی جان چھڑانا چاہتا ہے کیونکہ ان کی وجہ سے بھی برطانیہ میں روزگار پر کافی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور میعیشت دباو کا شکار ہے۔علاوہ ازیں برطانیہ کے اس فیصلہ پر عالمی رہنماوں کا ملا جلا ردعمل دیکھنے کو ملا ۔جرمنی کے وائس چانسلر نے اسے یورپ کے لیے برا دن قرار دیا۔امریکہ میں ریپبلکن کی جانب سے ممکنہ صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے برطانیہ کے اس فیصلہ کو سراہا۔ میری دانست میں برطانیہ کو سب سے بڑا مسلہ جو درپیش ہو گا وہ یہ کہ اسے یورپی ممالک سے از سر نو تجارتی روابط استوار کرنے پڑیں گے جو برطانیہ کے لیے کسی چیلنج سے کم نہ ہوں گے۔
اس بات سے قطع نظر کہ یورپی یونین کا مستقبل کیا ہو گا یا برطانیہ کی معیشت پر اس کے اثرات کی نوعیت کیا ہو گی میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ یہ اقوام اخلاقیات کے حوالے سے ہم سے کس قدر بالادست ہیں ۔ڈیوڈ کیمرون جن کا موقف تھا کہ برطانیہ کو یورپی یونین کا حصہ رہنا چاہیے جب عوام کی اکثریت نے ان کے موقف کی تائید نہ کی تو انہوں نے فوری مستعفی ہونے کا اعلان کر دیا ۔ کاش پاکستان میں بھی عوامی رائے کی اتنی ہی اہمیت ہوتی تو آج پاکستان جس جہنم نما حالات کا مقابلہ کر رہا ہے اسے یہ صورتحال درپیش نہ ہوتی ۔ پاکستانی سیاست دانوں کو کبھی یہ توفیق نہ ہوئی کہ وہ عوام کی آنکھوں میں بھی جھانک کر دیکھ لیں کہ وہ کیاچاہتے ہیں ۔ ہمارے حکمرانوں نے عوامی رائے کی دھجیاں بکھیر کر ہمیشہ بیرونی آقاوں کی رائے اور منشا کو ترجیح دی جس کے منفی اثرات آج پوری قوم پر اک عفریت کی صورت مسلط ہیں۔ہم بحثیت مجموعی اخلاقیات کے پست ترین درجہ کو چھو رہے ہیں۔
جب تک ہم انفرادی اور اجتماعی سطح پر یہ عہد نہیں کر لیتے کہ ہماری قوم کا ایک ایک فرد قومی ترقی میں اپنا حصہ ڈالے گا تب تک ہماری معاشرتی ،سماجی اور معاشی گاڑی کی سمت خوشحالی کی جانب نہیں مڑ سکتی ۔ہم انفرادی سطح پر نہ صرف محنت نہیں کرتے بلکہ اپنے ان بھائیوں کی راہ میں بھی پتھر رکھنے کو کسی معرکہ سے کم نہیں سمجھتے جو ملک و قوم کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں ۔ ہماری نگاہوں میں صرف خوشامدی ٹٹو اور چمچہ گیر ہی ہمارے خیرخواہ ہیں ہم بحثیت پاکستانی اور بالخصوص سیاستدان صرف ایسے لوگوں کو ہی آگے جانے کا راستہ دیتے ہیں اور جب یہ لوگ منصب اقتدار تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر یہ لوگ عالمی سطح پر چاپلوسی کا عمل دہرانا شروع کر دیتے ہیں ۔ہم بے ضمیر لوگوں کا انتخاب کر کے پھر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھارت اور عالمی طاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کریں گے اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے۔ فہم و فراست اور سیاسی بصیرت کے دریا بہا دیں گے، ہمارے معاشرہ میں موجود چند طاقت ور لوگ تو قابل لوگوں کی لیاقت ، اہلیت اور قابلیت کے قاتل بن چکے ہیں۔
ہم چن چن کر نکمے، نااہل اور عقل سے عاری افراد کو اچھے سے اچھا عہدہ پیش کرتے ہیں اور حیرت کی بات ہے پھر ان سے ہی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں کہ یہ ہماری تقدیر بدل کر رکھ دیں گے ۔اگر ہم دنیا کے کامیاب ممالک کی فہرست پر عمیق بھری نگاہ ڈالیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ زمانے کے تغیر و تبدل اور نشیب و فراز کے عمل کے دوران ان ممالک کو کوئی نہ کوئی ایسا حکمران میسر آ گیا جس نے اپنے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوے صرف اور صرف اپنے عوام کی فلاح کا سوچا ۔ اس نے اپنی قوم کو نامصائب حالات سے نکالنے کا مصمم ارادہ کر لیا ۔یاد رہے یہ وہ لیڈر تھے جن کا نہ تو سرے محل تھا نہ دبئی و برطانیہ میں فلیٹ اور جائدادیں تھیں اور نہ ہی پاناما لیکس میں ان کی آف شور کمپنیوں کا ذکر ملتا ہے ۔ یہ وہ لیڈر تھے جنہوں نے اپنے لیے تو ایک پھوٹی کوڑی جمع نہ کی لیکن ان کے ملک دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں راج کرنے لگے۔
Panama Leaks
ان حکمرانوں بارے تفصیل بھی کسی وقت رقم کر دوں گا ۔ان حکمرانوں نے اپنے عوام کے لیے ذاتی سکھ چین اور آرام کی قربانی دی جبکہ اس کے بر عکس ہمارے حکمران ہمیشہ عوام کی قربانی کے ہی خواہشمند رہتے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستانی عوام اس ضمن میں سرخرو ہے ۔گیس ہے بجلی ہے نہ پانی ۔ اکثریت بنیادی سہولتوں سے ہی محروم ہے پھر بھی صبر اور شکر کا لباس زیب تن کیے اپنی اپنی پسند کے لیڈروں کے حق میں زندہ باد کے نعرے لگاتے جھوم رہے ہیں۔ہماری سوچ کا انداز بھی عجب ہے چند خربوزے لینے جائیں تو پوری ریڑھی سونگھ سونگھ کر دیکھتے ہیں کہ خوشبو آ رہی ہے کہ نہیں ۔ اگر خوشبو آ رہی ہو تو سمجھ جاتے ہیں خربوزہ میٹھا ہے لیکن ملک کی تقدیر پر اثرانداز ہونے والے عوامی نمائندوں کا انتخاب کرتے وقت ہم کرپٹ عوامی نمائندوں کی بد بو تک سونگھ نہیں پاتے ۔ہمار ے دل و دماغ میں یہ سوچ جگہ بنا ہی نہیں پاتی کہ ہمارا انتخاب ہی ملک و قوم کی مثبت سمت کا تعین کرے گا۔ اگر ہم اہل،قابل اور ایماندار نمائندوں کا چناو کریں گے تو ہی ملک کا قبلہ درست ہو گا۔
اس ضمن میں ہم اک مدت سے بے شعوری کی ٹرین پر محو سفر ہیں اور نہ جانے ہماری منزل کیا ہے ۔عوام کا فرض ہے کہ وہ اپنی ترجیحات کا از سر نو جائزہ لے ۔حکمرانوں کو مجبور کرے کہ تعلیم و صحت کے میدان میں غیرمعمولی کارکردگی دکھائیں ۔ احتساب کے نظام کو اس قدر طاقت ور کریں کہ کسی بھی عوامی نمائندے کو کرپشن کرتے وقت سو مرتبہ سوچنا پڑے ۔ آپ جانتے ہیں اس وقت وطن عزیز دو بڑے مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے ۔ ایک کرپشن اور دوسرا مسلہ جو درد سر بنا ہوا ہے دہشت گردی کا ہے ۔ان دونوں بیماریوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہمارے لیے ناگزیر ہے۔
عوام کو چاہیے کہ وہ حکومت پر دباو ڈالے کہ وہ کرپشن قوانین اس قدر سخت بنائے کہ کرپٹ افراد کی حوصلہ شکنی ہو اور ان کی نظر صرف عوامی فلاح پر مرکوز ہو ۔ علاوہ ازیں عوامی سطح پر بھی اور حکمرانوں کے ایوانوں میں بھی سیاسی اخلاقیات کا پرچار ضروری ہے اگر کسی حکمران سے کوئی غلطی و کوتاہی سرزد ہو جائے تو اس کے اند ر مستعفی ہونے کاحوصلہ بھی ہونا چاہیے وہ جونک کی طرح اقتدار کو چمٹ نہ جائے بلکہ مغرب سے یہ اخلاقی سبق سیکھ کے عزت و آبرو کے ساتھ اپنے منصب سے الگ ہو جائے۔ اگر پاکستان میں کسی ایک حکمران نے بھی یہ روایت قائم کر دی تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں پاکستان کی ترقی و خوشحالی کی بنیاد اسی دن ڈل جائے گی۔