یورپ (اصل میڈیا ڈیسک) ہر سال یورپی کمیشن یورپی یونین کے امور کا جائزہ لیتا ہے اور کمیشن کا صدر یورپی پارلیمان میں ایک تقریر بھی کرتا ہے۔ اس سال اس یورپی اتحاد کو جواہم ترین مسائل درپیش ہیں وہ وہی ہیں جن سے 2020ء میں بھی یورپی یونین دوچار تھی۔
یورپی یونین نے یورو بیرومیٹر سروے کرانے کا سلسلہ خود ہی شروع کیا تھا۔ اس کی تازہ ترین رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ یورپی بلاک میں شامل تمام ممالک کے شہریوں کا ماننا ہے کہ یورپی یونین کو چار اہم ترین مسائل کو حل کرنے پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے۔ ان مسائل کا تعلق موسمی تبدیلی، کووڈ کی وبا و صحت کی دیکھ بھال، معاشی صورتحال اور سماجی عدم مساوات جیسے امور سے ہے۔ یہ وہ موضوعات ہیں جن پر یورپی کمیشن کی صدر اُرزولا فان ڈیئر لائن 15 ستمبر کو یورپی پارلیمان کے سامنے اپنے ” اسٹیٹ آف دی یونین‘‘ خطاب میں روشنی ڈالیں گی۔ یہ ان کا دوسرا ” اسٹیٹ آف دی یونین‘‘ خطاب ہوگا۔ اُرزولا فان ڈیئر لائن گزشتہ سال کی کامیابیوں کا جائزہ اور آئندہ برس کے لیے نئے اقدامات تجویز کریں گی۔یورپ کو عالمی سیاسی، اقتصادی دباؤ کا سامنا: میرکل کی تنبیہ
یورپ میں اب کووڈ انیس کے خلاف ویکسین کی کافی تعداد موجود ہے۔ موسم خزاں کی آمد آمد ہے تاہم ویکسینیشن کی شرح اب بھی کافی کم ہے۔ یوں تو یورپی بلاک نے 70 فیصد بالغ افراد کی ویکسینیشن کا ہدف طے کر لیا ہے تاہم کورونا وائرس کے نئے اور کہیں زیادہ پھیلنے کی صلاحیت کے حامل ویریئنٹ ‘ ڈیلٹا‘ کے خطرات سے نمٹنے کے لیے 70 فیصد کی شرح کافی نہیں ہے۔ دوسرے یہ کہ پورپی یونین میں شامل ممبر ممالک میں ویکسینیشن کی شرح ایک دوسرے سے بہت مختلف رہی ہے۔
مثال کے طور پر بلغاریہ میں ویکسینیشن کی شرح محض 20 فیصد جبکہ مالٹا میں 90 فیصد ہے۔ یورپی کمیشن کو اس سلسلے میں آئندہ مہینوں میں بہت مستعدی سے کام کرنا ہوگا۔ یورپی یونین کی ہیلتھ کمشنر اسٹیلا کریاکیڈس نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ کمیشن کی صدر فان ڈیئر لائن اس سلسلے میں پہلے ہی ‘ یورپی ہیلتھ ایمرجنسی رسپانس اتھارٹی HERA لانچ کر چُکی ہیں۔ اس کا مقصد مستقبل میں کسی بھی وبا کے پھیلاؤ کا پیشگی طور پر اندازہ لگاتے ہوئے اس پر قابو پانے کے موثر اقدامات کرنا ہے۔ اس طرح موجودہ صورتحال کے برعکس مستقبل میں تمام 27 ممبر ممالک یکساں معیارات کے ساتھ ایک جیسے اقدامات کرتے ہوئے کسی وبائی صورتحال سے نمٹنے کے لیے یکساں تیار ہوں گے۔
کورونا کے سبب پیدا ہونے والی بیماری کووڈ انیس کے براہ راست اثرات معیشت پر پڑے ہیں اور اس میں غیر معمولی گرواٹ دیکھنے میں آئی۔ کمیشن کی صدر اُرزرلا فان ڈیئر لائن نے اب ایک اہم تعمیر نو کے پروگرام کی منصوبہ بندی کی ہے جو معیشت کو پہنچنے والے نقصانات سے نمٹنے کے لیے مؤثر ثابت ہوگا۔
اس کے لیے 750 بلین یورو کا فنڈ مقرر کیا گیا ہے جو کہ پہلی بار مشترکہ قرض کے ذریعے اکٹھا کیا جائے گا۔ آئندہ چند سالوں میں یہ پورپی یونین کی اقتصادی پالیسی کا محور رہے گا۔ اس پروگرام سے گرچہ شہریوں کی توقعات بہت زیادہ اور بڑی ہیں تاہم اس کے لیے یورپی یونین کے تمام ممبر ممالک زیادہ مقروض ہو جائیں گے اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہوگا۔ اس سے کیسے نمٹا جا سکے گا، اس موضوع پر بحث شروع ہو چُکی ہے۔
پورپی کمیشن چاہتا ہے کہ ریکوری فنڈ کی رقم کا ایک بڑا حصہ ” سبز سرمایہ کاری‘‘ پر صرف کیا جائے۔ اس کے پیچھے کار فرما خیال یہ ہے کہ یورپی یونین کی ” گرین ڈیل‘‘ یورپ کو دنیا کا پہلا ‘کلائمٹ نیوٹرل‘‘ براعظم بنا دے گی، جس میں ضرر رساں کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 2050 ء تک واضح کمی واقع ہو گی۔ اب اصل کام جو ہونا ہے وہ ہے قابل تجدید ‘الیکٹرو موبیلیٹی‘ اور ڈی جیٹل کی جدید ڈیجیٹل ملازمتوں میں منتقلی کے لیے قوانین اور اقدامات کا متعارف کرانا ہیں۔ یہ امر ہنوز واضح نہیں کہ کس ممبر ملک کو اپنے ہاں کس حد تک گرین گیسوں کے اخراج میں کمی لانا ہوگی اور یہ اہداف کیسے حاصل کیے جائیں گے۔
ایک مسئلہ یہ ہے کہ خود یورپی یونین کے اندر، تقسیم کا سبب بننے والی قوتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مثال کے طور پر پولینڈ اور ہنگری کی حکومتیں اپنے اپنے ممالک میں قانون کی حکمرانی کو یقینی بنانے کی یورپی کمیشن اور پورپی عدالت انصاف کی کوششوں کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں۔ یورپی اتحاد میں شامل تمام ممالک پورپی اقدار اور بنیادی انسانی حقوق کے بارے میں یکساں معیار نہیں رکھتے۔ خاص طور پر پولینڈ، ہنگری اور چند دیگرنسبتاً نئے ممبر ممالک ہم جنسیت کے خلاف بڑھتے ہوئے رجحانات سے کافی متاثر ہو رہے ہیں جو ان ممالک کی پالیسیوں سے بھی واضح ہے۔ دوسرے یہ کہ مہاجرت کی پالیسی کے حوالے سے بھی یورپی یونین کے رکن ممالک میں یکجہتی کا فقدان نظر آتا ہے۔ مہاجرین اور پناہ گزینوں کے مسائل سے نمٹنے کے اقدامات کے بارے میں بھی یونین کے ممبر ممالک میں تقسیم پائی جاتی ہے۔ اب جب کہ افغانستان کی صورتحال مزید خراب ہو چُکی ہے، آنے والے ہفتوں میں مہاجرت اور تارکین وطن کے مسائل کے بارے میں مزید سوالات اُٹھیں گے اور یورپی یونین کو اس چیلنج سے بھی نمٹنا ہوگا۔