واشنگٹن (جیوڈیسک) برطانیہ کی عدالتِ عالیہ نے یورپی یونین سے علیحدگی کے معاملے پر فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کو چاہیئے کہ الگ ہونے سے قبل پارلیمان سے مشاورت کی جائے۔ تجزیہ کار اِسے ’بریگزٹ‘ کے حامیوں کے لیے ایک ضرب خیال کرتے ہیں۔
علیحدگی کے حامیوں نے کہا ہے کہ ووٹروں کی جانب سے یہ فیصلہ جون میں کیا گیا تھا، اور یہ کہ عدالت کے اِس فیصلے کے خلاف باضابطہ اپیل دائر کی جائے گی۔
وزیر اعظم تھریسا مئی نے کہا ہےکہ وہ مارچ میں ’لسبن معاہدے‘ کی شق 50 کا معاملہ اٹھائیں گی، تاکہ یورپی یونین سے علیحدگی کا معاملہ آگے بڑھایا جائے، اور اس طرح، یورپی یونین میں برطانیہ کی رکنیت ختم کرنے کے لیے مذاکرات کا آغاز ہوگا۔
عدالت کا یہ فیصلہ مئی کے لیے مایوسی کا باعث ہے اور اب سوال یہ اٹھتا ہے آیا برطانوی رہنما اس نظام الأوقات پر عمل درآمد کرپائیں گی۔
فوری طور پر، ’10 ڈاؤننگ اسٹریٹ کا جواب سامنے آیا ہے۔ وزیر اعظم کی ایک ترجمان نے کہا ہے کہ مئی اب بھی یہی سمجھتی ہیں کہ مارچ کے اواخر تک وہ شق 50 کا سہارا لے کر معاملے کو نمٹائیں گی۔ اُن کی حکومت دسمبر میں عدالت عظمیٰ میں اپیل دائر کرے گی۔
ترجمان کے الفاظ میں ’’ہمارا کوئی ایسا ارادہ نہیں کہ ہمارے نظام الاوقات میں کسی قسم کا فرق پڑے گا‘‘۔
یورپی یونین سے علیحدگی کے مخالفین دعویٰ کرتے ہیں کہ تھریسا مئی نے آئینی شق 50 کا سہارا لے کر یکطرفہ فیصلہ کیا، جو غیر آئینی اقدام ہے، اور یہ عمل اُسی صورت میں ہو سکتا ہے جب یہ معاملہ پارلیمان کے سامنے پیش کیا جائے۔ اصولی طور پر، عدالت نے اِس سے اتفاق کیا۔
جمعرات کو فیصلہ سناتے ہوئے، عدالت نے کہا ہے کہ اُس نے حکومت کی جانب سے پیش کردہ دلائل کو تسلیم نہیں کیا، اور حکم دیا کہ آئین کی رو سے، بغیر پارلیمنٹ کی منظوری کے، حکومت کو کسی داخلی قانون کی ترمیم کا حق حاصل نہیں ہے۔
لارڈ چیف جسٹس، جان ٹھومس نے اپنے کلمات میں کہا ہے کہ ’’برطانوی آئین کا بنیادی ضابطہ یہ ہے کہ پارلیمان اقتدار اعلیٰ کا مالک ادارہ ہے‘‘۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ عدالت کا فیصلہ برطانیہ کی جانب سے یورپی یونین سے علیحدگی کے ابرے میں نہیں یا یہ کہ کیا برطانیہ کو یورپی یونین چھوڑنا چاہیئے، بلکہ اس عمل کے کوائف سے ہے آیا ووٹروں کے فیصلے کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔