ترکی (جیوڈیسک) ترک صدر رجب طیب اردوغان کا کہنا ہے کہ ترکی کے یورپی یونین میں شمولیت اختیار کرنے سے متعلق ‘جذباتی وابستگی’ نہیں ہونی چاہیے اور وہ روس اور چین کے ساتھ یوروایشین گروپ میں شامل ہوسکتا ہے۔
ترک ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر اردوغان کا کہنا تھا کہ وہ اپنے روسی ہم منصب ولادی میر پوتن اور قزاقستان کے صدر نور سلطان نذربائیوف سے اس حوالے سے بات جیت کر چکے ہیں۔
یہ دونوں ممالک شنگھائی پیکٹ کے ممبران ہیں جس میں چین، کرغستان اور تاجکستان شامل ہیں۔ خیال رہے کہ جولائی میں ترکی میں ناکام بغاوت کے بعد ترکی کے یورپی یونین میں شامل کیے جانے کے امکانات معدوم ہوگئے ہیں۔
یورپی ممالک کا کہنا ہے صدر اردوغان کی جانب سے کی گئی کارروائیاں ویزا فری سفر کے بلاک میں شامل ہونے کے اصولوں کے منافی ہوسکتی ہیں۔
ترک اخبار حریت اور دیگر ذرائع ابلاغ کے مطابق صدر اردوغان نے ازبکستان میں سے پرواز کرتے ہوئے ترک صحافیوں کو بتایا کہ ترکی کو یورپی یونین کے مطابق میں اطمینان کرنا چاہیے اور اس میں شمولیت سے متعلق جذباتی وابستگی نہیں رکھنی چاہیے۔
صدر اردوغان نے یورپی یونین کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس سال کے اختتام تک ان کی رکنیت کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرے
ان کا کہنا تھا کہ ‘شاید کچھ لوگ تنقید کریں لیکن میں اپنی رائے دیتا ہوں۔ مثال کے طور پر میں کہتا ہوں ترکی سنگھائی 5 میں شمولیت کیوں نہ اختیار کرے؟’
صدر اردوغان کی جانب سے ترکی کے شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (شنگھائی پیکٹ( میں شمولیت اختیار کرنے کا خیال پہلے بھی کئی بار پیش کیا جاچکا ہے جس سے اس کی یورپی یونین کی رکنیت کی امیدیں ختم ہوسکتی ہیں۔
صدر اردوغان نے ترک عوام سے یورپ کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے رواں سال کے اختتام تک تحمل کا مظاہرہ کرنے کا کہا ہے ہے اور ساتھ میں یہ بھی عندیہ دیا ہے کہ آئندہ سال 2017 میں یورپی رکنیت کے حوالے سے ریفرینڈم کوایا جا سکتا ہے۔
گذشتہ سال نومبر میں ترک فضائیہ کی جانب سے روسی جنگی طیارہ مار گرانے کے بعد شنگھائی پیکٹ میں شمولیت کا ارادہ پس منظر میں چلا گیا تھا۔
ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت کے لیے سنہ 1987 میں درخواست دی تھی تاہم اگست میں ترک میڈیا نے خبر دی تھی صدر نذربائیوف نے انقرہ اور ماسکو کے مابین تنازع ختم کرنے میں کردار ادا کیا تھا۔
واضح رہے کہ ترکی نے یورپی یونین میں شمولیت کے لیے سنہ 1987 میں درخواست دی تھی تاہم اس حوالے سے بات چیت کا آغاز سنہ 2005 میں ہوا تھا۔
برسلز نے ترک حکومت کی جانب سے مبینہ طور پر بغاوت کی سازش کرنے والے افراد اور گروہ کے خلاف کریک ڈاؤن پر سخت ردعمل کا اظہار کیا تھا اور انقرہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ انسانی حقوق اور آزادی کا خیال رکھے۔