حوا کی بیٹی

Woman

Woman

آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی ہے کہ عورت کیا چیز ہے اور اس کو شروع سے اب تک معاشرے میں کیا مقام حاصل ہوا ہے؟ دور جہالت میں اسے پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کر دیا جاتا تھا۔ اور آج بھی جب وہ پیدا ہوتی ہے تو کوئی اس کی پیدائش پر زیادہ خوش نہیں ہوتا۔ لیکن وہ تمام عمر لوگوں کو خوشیاں بانٹنے میں لگی رہتی ہے۔ جب وہ ماں باپ کے گھر میں ہوتی ہے تو ان کی وفادار بن کر رہتی ہے۔ ان کیلئے دعائیں کرتی ہے۔ جب شادی ہوتی ہے تو شوہر کی وفادار بن کر ساری زندگی اس کی لمبی عمر کی عائیں مانگتی ہے۔ جب وہ ماں بنتی ہے تو باقی زندگی بچوں کو پالنے اور ان کی تربیت کرنے میں گزار دیتی ہے۔ اولاد چاہے فرمانبردار ہو یا نا فرمان لیکن وہ انہیں دعائیں دیتے نہیں تھکتی۔ ان ساری حقیقتوں کے باجود عورت کا اپنا کچھ نہیں ہوتا۔ جہاں پیدا ہوتی ہے تو وہ باپ کا گھر ہوتا ہے۔ جب بیاہی جاتی ہے تو وہ شوہر کا گھر اور جب بوڑھی ہو جاتی ہے تو بیٹوں کا گھر۔ اگر اس کا اپنا کچھ ہے تو وہ فقط ایک قبر۔ کیا عورت ڈھیٹ ہوتی ہے؟ ہرگز نہیں! عورت ایک عظیم ہستی ہے جسے اسلامی معاشے میں ایک اہم مقام و منزلت حاصل ہے۔ جو ہر رشتہ کو خلوص دل سے نبھاتی ہے۔ عورت کو آج تک کوئی نہیں سمجھ سکا لیکن وہ ہر کسی کے مزاج کو سمجھتی ہے۔ ہر کسی کی پسند نا پسند کا خیال رکھتی ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ عورت بے عقل ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے اور ہر کامیاب آدمی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔

اگر کوئی بچہ اعلیٰ تعلیم حاصل کر لیتا ہے تو کہتے ہیں کہ باپ کا اثر ہے اور اگر کوئی بچہ بگڑ جاتا ہے تو کہتے ہیں کہ ماں کے لاڈ پیار نے بگاڑ دیا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ اس ”کیوں” کا جواب یہ معاشرہ ہے جس نے آج تک عورت کو اس کا اصل مقام نہیں دیا۔ جس کی وہ صحیح مستحق ہے۔ ہر سال 18 مارچ کو عورتوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ خواتین کے بارے میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق خواتین پر تشدد ایک وباء کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اس تشدد کے باعث 15 سے 40 سال کی عمر خواتین میں شرح اموات کینسر ، ایڈز اور ٹریفک حادثات یا جنگ سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ ملک پاکستان میں 2011 کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافہ ہوا۔ بالخصوص عورتیں اپنے مستقبل کے بارے میں اب زیادہ فکر مند ہیں۔

Pakistan

Pakistan

پاکستان ہیومن رائٹس کی عاصمہ جہانگیر نے بتایا کہ عورتوں میں عدم تشدد کا شعور بڑھ رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں فرقہ وارانہ تشدد اور دہشتگردی کے ساتھ ساتھ خواتین پر تشدد میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہر 24 گھنٹوں میں 13 خواتین جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بھی اسی قسم کے واقعات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

آج ہم غیر مسلم ممالک کو چھوڑ کر صرف اپنے ملک پاکستان کی بات کریں جو کہ اسلامی جمہوریہ اور اسلامی قوانین کی ایک سب سے مضبوط کڑی ہے یہاں بھی عورت اپنے اصلی مقام سے محروم ہو کر رہ گئی ہے۔ اس حوا کی بیٹی پر دل دہلا دینے والے واقعات آئے روز ہمارے سامنے آتے ہیں۔ کبھی 12 سال کی بچی کو حوس کے بچاری اپنی گندی حوس کا بار بار نشانہ بناتے ہیں اور اس سے بھی دل نہیں بھرتا تو اس کو اغوا کر لیا جاتا ہے اور جنسی تشدد کیا جاتا ہے۔ جب وہ مقدمہ کرواتی ہے تو ایسے ملزمان جن کی اسلام میں سزا موت ہے انہیں پکڑ کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اور وہ ملزمان باہر دوسری کسی لڑکی کی عزت تار تار کرنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ کبھی کسی لڑکی کو بظاہر شادی کا جھانسہ دے کر دور دراز سے لا کر پہلے خود جنسی تشدد کیا جاتا ہے اور پھر بار بار اس کی عزت کو خاک میں ملانے کیلئے اونے پونے داموں فروخت کر دیا جاتا ہے۔ آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے اس ملک میں؟ عورت کو اس کا صحیح مقام کیوں نہیں دیا جا رہا؟ جبکہ سب مسلمان یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کو اٹھا کر اسی عورت کے قدموں کے نیچے رکھ دیا ہے۔ یہ بھی جانتے ہیں کہ جب بیٹا پیدا ہوتا ہے تو ایک رحمت نازل کی جاتی ہے اور اگر بیٹی پیدا ہوتی ہے تو 27 رحمتیں نازل کی جاتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ عورت اپنے مقام سے اسی وقت گر جاتی ہے

جب وہ کسی کی گرل فرینڈ بن جاتی ہے لیکن کوئی یہ کیوں نہیں کہتا کہ مرد اپنی مردانگی اسی وقت گنوا دیتا ہے جب وہ کسی نہتی عورت پرظلم و جبر کرتا ہے اور پھر اس کو اپنی حوس کا نشانہ بناتا ہے۔ اگر ہم اسلامی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو ہمیں عورت کا ایک خاص مقام و رتبہ ملے گا لیکن آج اگر ہم اپنے ملک میں دیکھیں تو دور جہالت جو سرورِ کائینات حضرت محمد ۖ سے پہلے کا دور تھا وہ عورتوں کے بارے میں آج سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔ پھر حضور نبی کریم حضرت محمد ۖ اس دنیا میں تشریف لائے اور عورت اور مرد کو اللہ کے حکم سے برابری کا مقام ملا۔ کچھ مقامات پر عورت کو مرد پر فضیلت ہے اور کچھ مقامات پر مرد کو عورت پر فضیلت ہے۔ لیکن مجموعی طور پر دونوں کے حقوق اور رتبے برابر ہیں۔ کہتے ہیں کہ عورت نسلوں کی امانت دار ہوتی ہے لیکن آج عورت کو اپنے پائوں کی جوتی سمجھا جاتا ہے اور اسے جیسے چاہے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس پر ایسے اسے ظلم ڈھائے جاتے ہیں جو ناقابل بیاں ہیں۔ کبھی ان کے منہ پر تیزاب ڈال دیا جاتا ہے تو کبھی ان کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ کبھی حوس کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی عزت اور غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے۔ ظلم کی انتہا یہ ہے کہ عورت کو انسانی کھال میں چپھے بھیڑیے اپنی گندی حوس کا نشانہ بنا کر اس کی عزت تار تار کر دیتے ہیں اور پھر اپنی عزت کے خوف سے اس کو وحشیانہ تشدد کر کے قتل کر دیتے ہیں۔

آخر میں میرا پاکستانی نوجوانوں اور تمام پڑھنے والے لوگوں کو یہ ادنیٰ سا پیغام ہے کہ خدا کے واسطے اس حوا کی بیٹی کی عزت کو مٹی میں ملنے سے روکنے کی کوشش کریں۔ قرآن مجید میں بھی کہا گیا ہے کہ اپنی نظروں کو نیچا رکھو تا کہ تمہاری عزت محفوظ رہے۔ مجھے بہت شرم کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ آج اگر کوئی ہماری ماں یا بہن کے بارے میں کچھ غلط بات کہہ دے تو ہم طیش میں آجاتے ہیں۔ لیکن ذرا سوچیں کہ جیسے ہمیں اپنی ماں اور بہن کی عزت پیاری ہے ایسے ہی دوسری عورتیں بھی کسی کی ماں کسی کی بہن ہونگی۔ آج کسی کی ماں ، بہن کے ساتھ ذیادتی کرو گے تو کل اپنی ماں ، بہن کی عزت کو بھی تار تار ہوتا دیکھو گے۔ خدا را اس کے بارے میں سوچیں اور دوسروں کو بھی اس معاشرتی گندگی سے دور رہنے کی ترغیب دیں۔

 Mr.SHAZIL

Mr.SHAZIL

تحریر: مسٹر شازل