تحریر: فرخ شہباز وڑائچ یہ شہر کے معروف شاہراہ کے قریب واقع وسیع و عریض ہال کا منظر تھا،ہال کی گہما گہمی عجیب منظر پیش کر رہی تھی۔ یہ شام کے سائے گہرے ہونے سے پہلے کا منظر ہے۔ آج اس ہال میں گویا زندگی کے ہر شعبے سے لوگ موجود تھے،ان لوگوں کو جمع کرنے کا مقصد یتیم بچوں کے ساتھ شام منانا تھا۔ عام طور پر ایسی تقریبات میرے لیے (irritation)کا باعث بنتی ہیں کیونکہ ہمارے ہاں ان بچوں کو ایک شو پیس کی طرح سجایا جاتا ہے اور پھر نت نئے طریقے استعمال کرکے ان کے لیے خیرات کی اپیل کی جاتی ہے،میں سمجھتا ہوں یہ اس طرح کے پسے ہوئے طبقات کی توہین ہے خیر اس تقریب میں ایسا کچھ نہیں تھا۔ آج کا دن یتیم بچوں کے نام کیا گیا تھا یہ وہ بچے تھے جن کے سر پہ کوئی سہارا نہیں تھا مگر ان کا سہاراسی شہر میں موجود کچھ نیک لوگ بنے۔میں نے ان بچوں کے چہرے خوشی سے چمکتے دیکھے ،مجھے لگا جیسے یہ خوشی مجھے مل گئی ہو۔کیسے کیسے لوگ آج صرف اور صرف ان بچوں کے لیے موجود تھے کن کن کے نام لکھوں الخدمت فائونڈیشن والے احسان اللہ وقاص،غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے روح رواں عامر جعفری،تعلیم کے شعبے کی عرصہ دراز تک خدمت کرنے والے میاں عمران مسعود،میرے استاد توفیق بٹ،عوام کو عزیز میاں اسلم اقبال،میری اخبار کے مد یر بزرگوار عطاالرحمن،نوجوانوں کی حوصلہ افزائی میں پیش پیش فرخ سہیل گوئندی،پیارے بھائی نجم ولی خان ،نورالھدی اور بے شمار چہرے جو ہمیشہ دمکتے رہیں گے۔
ان سب ناموں میں ایک نام،ان سب چہروں میں ایک چہرہ میں کیسے بھول سکتا ہوںوہ نورانی چہرہ ڈاکٹر امجد ثاقب کاہے جو لاچار،بے سہارا لوگوں کے لیے امید کی کرن ہے، اخوت کی شاندار مثالیں قائم کی ہیں کہ سننے والے دنگ رہ جاتے ہیں،زندگی میں جن چند لوگوں سے ملنے کی خواہش مجھے ہمیشہ سے رہی ہے ڈاکٹر امجد ثاقب کا نام ان لوگوں میں سر فہرست ہے۔کمالیہ کے پرائمری سکول سے اپنی تعلیم کا آغاز کرنے والے اس بچے کے بارے میں کون کہہ سکتا تھا کہ ایک دن اس بچے کی شہرت سات سمندر پار تک چا پہنچے گی۔۔ڈاکٹر امجد ثاقب کا نام سنتے ہی ”نام ہے اعتماد کا” یہ جملہ دل پر دستک دیتا ہے۔ ڈاکٹر امجد ثاقب لاہور کی معروف میڈیکل یونیورسٹی کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی سے گریجوایٹ ہیں۔سول سروس جوائن کی لیکن پھر سول سروس کی شاہانہ زندگی چھوڑ کرخدمت خلق کا راستہ اپنا لیا۔نیکی کتنی طاقتور ہوتی ہے یہ سوال ڈاکٹر امجد ثاقب سے پوچھا جا سکتا ہے۔
Harvard University
محنت کرنے والے اور نتائج اللہ کی ذات پر چھوڑ دینے والے ڈاکٹر امجد ثاقب اور ان کے ادارے اور کام کی کامیابی کی شہرت سات سمندر پار جا پہنچی۔ یہاں تک کہ امریکا کی سب سے پرانی ہاورڈ یونیورسٹی جسے دنیا کی سب سے امیر یونیورسٹی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے کے تینوں بزنس اسکولوں نے انھیں، باری باری اپنے ہاںخصوصی دعوت پر بلوایا۔ مائیکرو فنانس کا مشہور ایکسپرٹ میلکم ہارپر لندن سے بطور خاص لاہور آیا، اخوت کے مائیکرو فنانس کا کام اور اثرات دیکھنے۔ حیرت کا سمندر ساتھ لیے واپس گیا۔ اخوت نے بلاسودی چھوٹے قرضوں کے اجراء کے جس اچھوتے ماڈل کو متعارف کروایا اسے کامیاب ہوتے دیکھ کر دنیا حیران ہے۔کیونکہ اخوت ماڈل کسی طرح بھی رائج اصولوں پر پورا نہیں اترتا۔لیکن جذبہ سچا ہو تو کامیابی ساری دنیا چھوڑ کر آپ کے پاس آجاتی ہے۔ڈاکٹر امجد ثاقب جیسے لوگ ہمارے معاشرے کے لیے غنیمت ہیں۔مایوسی اور فرسٹریشن کے اس ماحول میں ڈاکٹر صاحب جیسے لوگ اس ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کی مانند ہیں جودلوں تک کو معطر کر دیتاہے۔
ڈاکٹر امجد ثاقب خوشبو سے لبریز اور بامقصد نثر بھی لکھتے ہیں۔شہر لب دریا،ایک یادگار مشاعرہ،غربت اور مائیکرو کریڈٹ،دشت ظلمت،گوتم کے دیس میں (سفر نامہ) سمیت کثیر تعداد میں فروخت ہونے والی کتاب”اخوت کا سفر” کے مصنف ہیں۔پاکستانی حکومت نے ان کی خدمات کے اعتراف میں ستارہ امتیاز جبکہ دبئی میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ سے نوازا گیا۔سول سروس اکیڈمی ،لمز اور بہت سے قومی ادارے باقائدگی سے ان کے لیکچر کا اہتمام کرتے ہیں۔بات جب خلوص سے بھرپور ہو تو کیسے سیدھا دل کے اس پار اتر جاتی ہے،بالکل ایسے ہی یہ سچائی،ایمانداری،خلوص،اچھے اخلاق والے ڈاکٹر امجدکی شخصیت آپ کے اندر تک اپنا تاثر چھوڑ جاتی ہے۔”اخوت کا سفر” جیسی شاہکار کتاب لکھنے والے اس مرد درویش کے عمدہ اخلاق اور صاف شفاف کردار کی گواہی تو دنیا دیتی ہے۔ ہماری سوسائٹی کو مزید اخوت،الخدمت فائونڈیشن،غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ،فائونٹین ہائوس جیسے اداروں کی ضرورت ہے جو نا صرف لوگوں میں آسانیاں تقسیم کر رہے ہیں بلکہ یہ روشن مثال بن رہے ہیں جنہیں دیکھ کر کتنے ہی اندھیر راستے روشنیوں کی شاہراہوں میں بدل رہے ہیں۔سچ پوچھیں توہماری تاریخ ان اداروں اور ان کے چلانے والے لوگوں پرہمیشہ فخر کرے گی۔تو آئیے ا ن چمکتے چہروں کو سیلوٹ پیش کرتے ہوئے اور احمد فراز کو یاد کرتے ہوئے اپنے حصے کی شمع جلانے کاعزم کرتے ہیں۔۔۔! شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے