شام (اصل میڈیا ڈیسک) شام میں جاری خانہ جنگی سے بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد نو لاکھ تک پہنچ گئی ہے اور اس سے سب سے زیادہ خواتین و بچے متاثر ہورہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے تازہ بیان کے مطابق شام شمال مغربی علاقے میں بحران ‘خوف کی نئی سطح’ تک پہنچ چکا ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ علاقے میں تشدد کے وجہ سے بے گھر ہونے والے افراد کی تعداد نو لاکھ تک پہنچ گئی ہے۔ یہ تعداد اس سے پہلے کے اعداد و شمار سے ایک لاکھ زیادہ ہے۔
اقوام متحدہ میں امدادی سرگرمیوں کے سربراہ مارک لوکاک کا کہنا ہے متاثرہ افراد میں بیشتر تعداد خواتین اور بچوں کی ہے، “جنہیں صدمہ پہنچا ہے اور چونکہ کیمپوں میں جگہ نہیں بچی ہے اس لیے وہ یخبستہ سردی کے موسم میں کھلے آسمان کے نیچے سونے پر مجبور ہیں۔ مائیں اپنے بچوں کو گرم رکھنے کے لیے پلاسٹک جلاتی ہیں۔ شدید سردی کے سبب کم سن بچے ہلاک ہورہے ہیں۔”
انہوں نے اپنے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا، “شام کے شمال مغربی علاقے میں بحران خوف کی نئی سطح تک پہنچ گیا ہے جہاں يکم دسمبر سے اب تک نو لاکھ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ اکیسویں صدی کے اس سب سے بڑے انسانی المیے سے اسی صورت میں بچا جا سکتا ہے جب سکیورٹی کاؤنسل اور اثر رسوخ والے لوگ کارروائی کریں۔”
شام کے ادلب اور صوبہ حلب کے آس پاس تقریبا تیس لاکھ لوگ آباد ہیں جس میں سے نصف آبادی شام کے دوسرے علاقوں سے بےگھر ہوکر یہاں پہنچی ہے۔ اقوام متحدہ نے اس سلسلے میں اپنی پریس ریلیز میں کہا ہے، “بلا امتیاز تشدد برپا ہے۔ ہسپتالوں، اسکولوں، رہائشی علاقوں، مساجد اور بازاری علاقوں میں حملے کیے گئے ہیں۔بیماریوں کے پھیلنے کا شدید خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ بنیادی ڈھانچہ بری طرح سے تباہ ہوتا جا رہا ہے۔”
“ہمیں اب اس طرح کی بھی اطلاعات مل رہی ہیں کہ جن علاقوں میں بے گھر ہونے والے افراد بسے ہیں ان پر بھی حملے کیے جارہے ہیں جس کے سبب نہ صرف بہت سے افراد ہلاک اور زخمی ہورہے ہیں بلکہ مزید لوگ بے گھر ہورہے ہیں۔ ترکی سے متصل سرحد پر بڑا امدادی آپریشن جاری ہے لیکن یہ ناکافی پڑ رہا ہے۔”
اس بحران کی زد میں آکر بہت سے امدادی اور انسانی حقوق کے کارکن بھی ہلاک یا بے گھر ہونے پر مجبور ہیں۔ لوکاک کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی کے اس سب سے بڑی انسانیت سوز اور خوفناک کہانی سے بچنے کے لیے فوری طور پر ہنگامی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے کہا، “انفرادی مفادات کو اس انسانیت سوز آپریشن کی راہ میں آڑے نہیں آنا چاہیے۔ ہمارے پاس صرف اور صرف جنگ بندی ہی ایک چارہ ہے۔”