بتایا جاتا ہے کہ شام مشرق وسطیٰ کا ایک بڑا اور تاریخی ملک ہے۔ اس کا مکمل نام الجمہوریہ العربیہ السوریہ ہے۔ اس کے مغرب میں لبنان، جنوب مغرب میں اسرائیل، جنوب میں اردن، مشرق میں عراق اور شمال میں ترکی ہے۔ شام دنیا کے قدیم ترین ممالک میں سے ایک ہے۔ تمام محققین اس بات پر متفق ہیں کہ زمین کے جس حصے پر پہلی انسانی آبادی کا آغاز ہو ا اس میں شام کا علاقہ بھی شامل ہے۔ موجودہ شام 1946 میں فرانس کے قبضے سے آزاد ہوا۔ اس کی آبادی دو کروڑ ہے جن میں اکثریت عربوں کی ہے۔ بہت تھوڑی تعداد میں اسیریائی، کرد، ترک اور دروز بھی شام میں رہتے ہیں۔ شام کے چودہ صوبوں دمشق، ریف، دمشق، قنیطرہ، درعا، سویدا، حمص، طرطوس، اذقیہ،حماہ، ادلب، حلب، رقہ، دیرالزور، حسکہ شامل ہیں۔
شام دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ دنیا کے قدیم ترین سامی اقوام اور زبانوں کے آثار شام سے دستیاب ہوئے ہیں۔ مشرقی شام کے شہر عبیل سے 1975 میں ایک عظیم سامی سلطنت کے آثار ملے ہیں جس میں قدیم ترین سامی زبانوں اور تہذیب کا بہترین نوادراتی اثاثہ شامل ہے ۔اس میں 17000 مٹی کی تختیاں ہیں۔ ان پر اس زمانے کی تجارت، ثقافت، زراعت وغیرہ کے بارے میں بیش قیمت معلومات درج ہیں۔ ان کا زمانہ 2500 قبل مسیح سے بھی پہلے کا ہے۔ شام پر یکے بعد دیگرے کنعانیوں، عبرانیوں، اسیریائی لوگوں اور بابل کے لوگوں نے قبضہ کیا اور نت نئی تہذیبوں کو جنم دیا جن کو آج ہم دنیا کی قدیم تہذیبوں کے نام سے جانتے ہیں۔
بعد میں رومیوں، بازنطینیوں، یونانیوں، ایرانیوں اور عربوں نے بھی شام پر حکومت کی۔ بنو امیہ کے دور میں دمشق اسلامی حکومت کا دارالخلافہ رہا ہے جسے بنو عباس کے دور میں تبدیل کرکے بغداد منتقل کر دیا گیا۔ شریف مکہ نے برطانوی سامراج کی ایما پر ترکی خلافت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے 1918ء میں دمشق میں ایک قومی حکومت قائم کرنے میں مدد دی جو فیصل بن حسین نے قائم کی جس کے تحت شام، لبنان، اردن اور فلسطین کے کچھ علاقے آتے تھے۔ 1919 عیسوی میں انتخابات ہوئے اور ایک مجلس (پارلیمنٹ) قائم ہوئی مگر اصل طاقت برطانوی سامراج اور اس کے حواریوں کے پاس رہی۔
Britain ,France
1916 میں برطانیہ اور فرانس میں ایک خفیہ معاہدہ ہوا جسے سائی کس پیکوٹ معاہدہ کہتے ہیں۔ جس کے بعد مجلس اقوام عالم (لیگ آف نیشنز)، جو اقوام متحدہ کی ابتدائی شکل تھی، کے ذریعے یہ اقتدار فرانس کو سونپ دیا گیا۔ 1920 عیسوی میں فرانسیسی افواج نے شام پر مکمل قبضہ کر لیا اور شام کو 1921 میں چھ ریاستوں میں تقسیم کردیا جن میں لبنان بھی شامل تھا۔ فلسطین کے بارے میں انگریزوں نے 1917 میں ہی ایک خفیہ معاہدہ (بالفور کا معاہدہ) کیا تھا جس میں وہاں ایک یہودی ریاست کے قیام کی منظوری دی گئی تھی۔ یہ وہ عہد تھا جس میں فرانس، برطانیہ اور دیگر سامراجی اور سرمایہ دار ممالک نے مشرق وسطی کو مختلف خفیہ معاہدوں کی مدد سے آپس میں بانٹ لیا تھا۔
اس اثناء میں شام میں کئی مزاحمتی تحریکوں نے جنم لیا۔ فرانس نے شام کو کئی دفعہ مصنوعی آزادی کا فریب دیا۔ 1932 میں شام میں پہلی دفعہ آزادی کا اعلان ہوا مگر پارلیمنٹ فرانس کی مرضی کی تھی اور تمام کابینہ ایسے لوگوں پر مشتمل تھی جو فرانس کے حواری تھے۔ اسی وجہ سے شام اس وقت ایک آزاد ملک نہ بن سکا۔ آزادی کی تحریکیں چلتی رہیں حتیٰ کہ یہ پارلیمنٹ فرانس نے 1939 میں دوسری جنگ عظیم کے بہانے ختم کر دی۔ فرانس خود 1940 میں جرمنی کے قبضہ میں آ گیا مگر شام پھر بھی آزاد نہ ہو سکا اور برطانوی اور فرانسیسی افواج نے 1941 میں شام کو روند ڈالا۔ اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے فرانس نے کئی پارلیمنٹ بنوائی اور مصنوعی حکومتیں تشکیل دیں۔
ایسی ہی ایک پارلیمنٹ 1943 میں تشکیل دی گئی جس کے ساتھ 1944 میں فرانس نے ایک معاہدہ آزادی کیا۔ مگر 1945 میں فرانسیسی افواج نے دمشق کے ارد گرد گھیرا ڈال کر زبردست بمباری کی اور پارلیمنٹ کی عمارت تباہ کر دی۔ اس بمباری میں شامی حکومت کے افراد کے علاوہ 2000 سے زیادہ عام لوگ، عورتیں اور بچے ہلاک ہوئے۔ اس وقت شام کے صدر شکری القوتلی تھے جن سے برطانوی سفیر نے ان سے ملاقات کی اور فرانس کے ساتھ صلح نامے پر دستخط یا کسی محفوظ مقام پر منتقلی کی تجویز دی جو انہوں نے رد کردی۔
ان کے اس عزم و حوصلے کے باعث ہی فرانس گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوا اور اسے اگلے سال شام خالی کرنا پڑا۔ دوسری جنگ عظیم کی وجہ سے فرانس اور برطانیہ دونوں کمزور ہو گئے تھے۔ فرانس نے جب یہ محسوس کیا کہ وہ مزید شام پر اپنا قبضہ نہیں رکھ سکتا تو اس نے شام کو آزادی دینے کا فیصلہ کیا۔ 1946 میں فرانس نے 1944 میں کیے جانے والے معاہدہ آزادی کو دوبارہ تسلیم کر لیا اور 15 اپریل 1946 کو فرانسیسی اور برطانوی افواج شام سے نکل گئیں۔ 17 اپریل 1946 کو شام نے آزادی کا اعلان کر دیا اور بیسویں صدی کا ایک آزاد ملک بن گیا۔ اس کا نام الجمہوریہ السوریہ رکھا گیا۔ بعد میں 30 مارچ 1949 کو برطانیہ، فرانس اور سی آئی اے (CIA) کی مدد سے ایک فوجی بغاوت ہوئی جس نے حکومت پر قبضہ کر لیا اور کم و بیش وہی کہانی شروع ہو گئی جو نو آزاد مسلمان ملکوں کی مشترکہ داستان ہے۔
U.S.
امریکہ کے صدر براک اوباما کہتے ہیں کہ شامی فوج کی جانب سے مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے جواب میں وہ شام کے خلاف محدود کارروائی پر غور کر رہے ہیں۔ جو ممالک کیمیائی ہتھیاروں سے متعلق بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان کا احتساب ہونا چاہیے۔ ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادی شام پر حملہ کرنے پر غور کر رہے ہیں تو اسرائیلی گیس ماسک ڈھونڈ رہے ہیں جب کہ دوسری طرف تیل کی قمیتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔لیکن ایک بات پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ ‘اگر مشرقِ وسطیٰ میں جنگ چھڑ گئی تو تیل مہنگا ہوگا۔’بھارت تیل کی درآمد پر بہت انحصار کرتا ہے اور حالیہ مہینوں میں خام تیل کی قیمتوں میں پے پناہ اضافہ ہوا ہے۔
شامی تنازع شروع ہونے کے بعد بھارتی حکومت نے اپنے شہریوں سے کہا تھا کہ وہ شام سے نکل جائیں۔ اس کے وجہ سے اب وہاں بہت کم بھارتی شہری رہ گئے ہیں۔شام کے پڑوسی ممالک بھی ایک نئے بحران سے نمٹنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی تحقیقات کرنے والے اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی ایک ٹیم سنیچر کو دمشق سے لبنان پہنچ گئی۔ انہوں نے شام میں چار دن تک معائنہ کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے سفارت کاروں کو بتایا کہ ان کی فائنل رپورٹ آنے میں دو ہفتے لگ جائیں گے۔لیکن شام پر اس رپورٹ کے جاری ہونے سے قبل حملے کا فیصلہ اس بات کا غماز ہے کہ حملے کا فیصلہ پہلے ہی ہو چکا تھا۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شام میں کیمیائی حملہ کیا گیا مگر کس نے کیا اس بارے میں کوئی ٹھوس دلیل نہیں ہے۔ اس حملے کو شامی صدر کے ساتھ منسلک کرنا زیادہ تر واقعاتی اور دعوں پر مبنی ہے، ایک اور اہم نکتہ جو غائب ہے وہ یہ کہ یہ سب امریکہ کی قومی سلامتی کے لیے اہم کیوں ہے کہ امریکہ فوجی حملے کا فیصلہ کرے۔ کیونکہ لوگ جاننا چاہیں گے خطرہ کیا ہے۔ اب تک روایتی ہتھیاروں سے ایک لاکھ کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور کوئی ردِ عمل نہیں دکھایا گیا تو اب کیوں؟ جان کیری نے بھی اسی پرزور انداز میں اپنا معاملہ پہلے نہیں پیش کیا جیسا کہ وہ اب پیش کر رہے ہیں۔
کیا امریکہ ایک اور جنگ کرنے جا رہا ہے؟’بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ شاید امریکہ اس پوزیشن میں نہیں کہ وہ ایک اور جنگ شروع کر سکے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ شام پرحملے ضرورکریگا کیونکہ شام پرحملہ کرنے کا امریکی بجٹ 65 لاکھ ڈالر ہے اور اس جنگ کیلئے سعودی عرب 70 لاکھ ڈالر ادا کر چکا ہے۔ شام کے مسئلہ پر سعودی عرب بہت متفکر ہے۔ اس کے وزیر خارجہ بندر بن سلطان نے جس طریقے سے روس کو شام پر امریکہ مخالف موئقف تبدیل کرنے کا مشورہ دیا اس سے کون واقف نہیں۔