شام ہوتی ہے تو وحشت نہیں دیکھی جاتی پھول سے چہروں پہ حسرت نہیں دیکھی جاتی ہم سے موسم کی عداوت نہیں دیکھی جاتی اب کسی چاپ نہ آہٹ کا گماں ہوتا ہے دل سے تنہائی کی وحشت نہیں دیکھی جاتی جابجا رِستے ہیں ناسُور گزرگاہوں کے ایسی غمناک مسافت نہیں دیکھی جاتی کب انہیں دن کے اجالے سے ہے رغبت جن کی شام ہوتی ہے تو وحشت نہیں دیکھی جاتی اِک پرندہ کہ جو پابندِ قفس ہے اب تک اس کے اڑنے کی جسارت نہیں دیکھی جاتی آج بھی زِیست کے دوراہے پہ اکثر زریں اِس دلِ زار کی حالت نہیں دیکھی جاتی