تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی قبیلہ قریش کے سردار عبدالمطلب اپنی بے مثال میزبانی اور فہم و فراست کی وجہ سے اپنی قوم کی آنکھوں کے تارے تھے ‘آپ عظیم باپ کے بیٹے تھے ‘اللہ تعالی نے آپ کو دس خوبصورت صحت مند کڑیل جوان بیٹے عطا کئے تھے ۔ ایک دن آپ کعبہ میں حطیم میں تشریف فرما تھے آپ کے دس بیٹے شیروں کی طرح آپ کے گرد حلقہ بنائے بیٹھے تھے کہ ایک اعرابی وہاں سے گزرا اور یہ خوش گوار منظر دیکھ کر بے ساختہ بولا ۔اللہ تعالی جب کوئی مملکت بنانا پسند کر تا ہو تو اس کے قیام کے لیے اِس قسم کے جوانمرد پیدا فرما دیاکرتا ہے ۔ اور پھر عبدالمطب کی زندگی میں عظیم واقعہ پیش آیا جب ابراہہ نے خانہ کعبہ پر لشکر کشی کی ۔ ابراہہ نے پہلے خوبصورت عظیم الشان گرجا تعمیر کیا ‘گرجے کو ہیرے جواہرات سے مرصع کیا کہ دیکھنے والے کی آنکھیں خیرہ ہو جاتیں لیکن بیت اللہ کے شیدائیوں نے گرجے کو ایک نظر بھی اٹھا کر نہ دیکھا ۔ ابراہہ کی خواہش تھی کہ اب لوگ خانہ کعبہ کی بجائے اُس کے بنائے ہو ئے گرجے کی پو جا کریں اب اُس نے کعبہ کی زیارت کو آنے والے قافلوں کو روکنا شروع کر دیا ۔ لیکن اُس کی کو ئی بھی کو شش کا میاب نہ ہو ئی تو نفرت کی آگ میں جل کہا کہ اب میں خانہ کعبہ کو پیوند ِ خاک کر دوں گا (نعوذ باللہ ) خانہ کعبہ کو گرا دوں گا۔
یہ خبر پورے عرب میں آگ کی طرح پھیل گئی اور پھر ابراہہ (حبشی ) والی یمن ایک کو ہ پیکر ہا تھی پر سوار ہو کر اپنے ساتھ ہا تھیوں کا لشکر لے کر مکہ مکرمہ پر چڑھائی کے لیے نکلا ۔ ابراہہ اپنے لشکر کے ساتھ طائف پہنچا ‘یہاںکے باشندوں نے اِس کی اطاعت کی اب ابراہہ وادی مکہ میں آکر ٹھہر گیا اور اپنے سواروں کا ایک دستہ اہل مکہ کی طرف بھیجا تا کہ وہ اہل مکہ کو خو فزدہ کر سکے اِس دستے نے خوب لوٹ ما ر کی لو گوں میں خوف و ہراس پھیلایا ۔ لوگوں کا بہت سارا مال اور جانور لوٹ کر لے گئے ۔اِن میں عبدالمطلب کے سو اونٹ بھی شامل تھے ۔ پھر ابراہہ کا سپاہی حناط صمیری عبدالمطلب کے پاس گیا اور آپ کو لے کر ابراہہ کے پاس حاضر ہوا ابراہہ نے جب آپ کو دیکھا تو آپ کی بہت تعظیم کی تخت سے نیچے اُتر کر قالین پر بیٹھ گیا اور عبدالمطلب کو بھی اپنے پہلو میں بیٹھا لیا اور پو چھا کیا کام ہے تو عبدالمطلب بولے آپ کے سپاہی میرے اونٹ لے آئے ہیں میں اُنہیں واپس لینے آیا ہوں
تو ابراہہ بہت زیا دہ حیران ہوا کہ تمھیں اپنے اونٹوں کی پرواہ ہے لیکن تمھیں خانہ کعبہ کا احساس نہیں ہے جس کو میں گرانے آیا ہوں جو تمھاری اور تمھارے آبائواجداد کی عبادت گا ہ ہے تمھیں اُس کی کو ئی پریشانی نہیں ہے تو فہم و فراست کے مالک جناب عبدالمطلب نے کہا میں اپنے اونٹوں کا مالک ہو ں اور میں اُنہیں ہی لینے آیا ہوں اور جس گھر کو تم گرانے آئے ہو اس کا بھی ایک مالک ہے اور وہ خود اُس کی حفاظت کر ے گا تو حبشی ابراہہ غرور سے بولا اب میرے شر سے کو ئی بھی کعبہ کو نہیں بچا سکتا میں کعبے کی اینٹ سے اینٹ بجا دوں گا تو عبدالمطلب بو لے تُو جان اور کعبے کا مالک جانے ۔اِس کے بعد عبدالمطلب واپس مکہ گئے اور قریش کو سارے حالات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ ابراہہ کے پاس ہزاروں کا لشکر ہے جس کا ہم مقابلہ نہیں کر سکتے لہذا اب بہتر یہی ہے کہ آپ تما م لو گ مکہ سے نکل جائیں ‘پہاڑوں غاروں اور بلند جگہوں پر چلے جا ئیں تاکہ اُس کے عذاب سے محفوظ رہ سکیں ۔ اور پھر اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ آئے اور غلا ف کعبہ پکڑ کر مالک دو جہاں خالقِ ارض و سما سے دعا کر نے لگے ابراہہ اور اُس کے لشکر پر فتح کی دعا کر نے لگے۔
ALLAH
اے اللہ بندہ بھی اپنے کجاوے کی حفاظت کر تا ہے تو بھی اپنے گھر کی حفاظت فرما ایسا نہ ہو کہ اِن کی صلیب کل تیرے گھر پر غالب آجا ئے اور نصب کر دی جا ئے اور اگر تو ان کو اور ہما رے قبیلہ کو آزاد چھوڑنے والا ہے تو جس طرح تیری مرضی ہو تو اِس طرح کر، اور پھر علا مہ علی قاری کے بقول جب قریش حرم سے نکل گئے اور اصحابہ فیل نے حملہ کیا تو حضرت عبدالمطب نے کہا بخدا اللہ کے حرم سے ہر گز نہیں نکلوں گا تاکہ اس کے علاوہ کسی اور کے پا س عزت تلا ش کروں میں تو اللہ تعالی کے بدلے میں اور کسی چیز کا متمنی نہیں ہوں اور جب ابراہہ فوج اور ہا تھیوں کو روانہ کر نے کا حکم دیا تو جب ہا تھی کا منہ مکہ کی طرف کر تے وہ بیٹھ جا تا اور جب اُس کا منہ کسی اور جانب کر تے تو وہ تیزی سے بھا گنا شروع کر دیتا جب مکہ کی طرف منہ کر تے وہ بیٹھ جا تا ہا تھی کو بہت ما را گیا وہ زخمی ہو گیا لیکن اُس نے مکہ کی طرف بڑھنے سے انکار کر دیا۔ اِسی دوران سمندر کی طرف سے اللہ تعالی نے ابا بیلوں کے غول کے غول بھیجے جن کے منہ میں کنکریاں تھیں ایک منہ میں اور دو کنکریاں پنجوں میں ابراہہ کے لشکر پر آکر کنکریوں کی بارش شرو ع کر دی کنکری کا سائز چنے اور مسور کے دانوں برابر تھا جس کے سر پر پڑتی اُس کے فولادی خول کو چیرتی ہو ئی اُس کے جسم سے پا ر ہو جاتی لشکر میں بھگڈر مچ گئی اُن کو واپسی کا راستہ نہیں مل رہا تھا ‘خدا کا ہو لناک عذاب جا ری تھا ‘ابراہہ کے ہا تھی اور لشکری بر باد ہو ئے ‘ابراہہ واپسی کی طرف بھا گا
اُس کی حالت بہت خراب تھی’ خطرناک بیماری کا شکا ر ہوا ‘اُس کا جسم گلنے لگا ‘جسم میں پیپ پڑھ گئی جس سے غضب کی بُو آتی آخر میں اُس کا جسم پرندے کے چوزے جیسا ہو گیا ‘آخر میں سینہ پھٹا دل نکلا اور وہ بھی پھٹ گیا وہ اِس طرح وہ اذیت ناک موت کا شکار ہوا۔ یہ وا قعہ سر تاج الانبیا ء نبی کریم ۖ کی پیدائش سے پچاس یا پچپن دن پہلے ماہ محرم میں پیش آیا اِس واقعے کی وجہ سے دنیا کی نگاہیں خا نہ کعبہ کی طرف متوجہ ہو گئیں ‘اقوام عالم کو شدت سے اندازہ ہو گیا یا قدرت کی طرف سے واضح پیغام دیا گیا کہ قیامت تک کے لیے اللہ تعالی نے اِس گھر کو عزت و احترام کے لیے چُن لیا ہے لہذا آئندہ اِس شہر سے کسی انسان کا دعویٰ نبوت اللہ کی مرضی کے عین مطابق ہو گا ۔قصہ اصحاب فیل میں ایک یہ بھی اشارہ تھا کہ اگر ابراہہ کا لشکر غالب آجا تا تو سرور کائنات ۖ کی قوم کو قید کر لیا جاتا اور وہ غلام بنا لیے جا تے اور سر تاج الانبیا ۖ پر حمل و طفولیت کی حالت میں غلامی کا دھبہ لگ جا تا
‘اللہ تعالی نے کعبہ شریف کی عظمت اور حرمت کو قائم رکھا اور یہ واقعہ دو جہاں ۖ کی نبوت کا پیش خیمہ تھا کیونکہ آپ ۖ کے دین میں اِسی کعبہ کی تعظیم حج اور نماز کا حکم ہوا ۔ ابراہہ اور اُس کے لشکر کی تبا ہی اقوام عالم کے لیے واضح اشارہ تھا کہ صدیوں کے انتظار کے بعد اب سسکتی تڑپتی انسانیت جو ظلم و جبر اور جہالت کے سمند ر میں غرق تھی اُس کا مسیحا اب اِس شہر سے طلوع ہو گا جو قیا مت تک آنے والے مجبوروں بے بسوں کا والی ہو گا ‘بے آسروں کا آسمان ہو گا ‘نسل ِ انسانی کے سب سے بڑے انسان ‘نبیوں کے سردار اور خدا کے محبوب ‘وجہ تخلیق کائنات کا ظہو ر اب اِسی شہر سے ہو گا اور پھر یہ شہر قیا مت تک اربوں انسانوں کی عبادت گا ہ ہو گا۔
Prof Abdullah Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی help@noorekhuda.org 03004352956