تحریر: سید توقیر زیدی مقبوضہ کشمیر میں سنٹرل ریزرو پولیس کے قافلے پر حملے میں سی پی آر ایف کے 8 اہلکار ہلاک اور 20 زخمی ہو گئے، جھڑپ میں دو مجاہدین شہید ہوئے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ یہ حملہ سرینگر سے جنوب کی جانب 15 کلومیٹر دور پام پورہ کے فریصتا بل علاقے میں ہوا۔ جب سینٹرل ریزرو پولیس فورسز (سی آر پی ایف) کی چھ گاڑیوں پر مشتمل قافلہ جنوبی کشمیر کے ایک ٹریننگ مرکز سے سرینگر کی طرف آ رہا تھا تو ایک کار سے دو مسلح حملہ آوروں نے قافلے میں شامل بس پر فائرنگ کردی۔ بس میں سی آر پی ایف کے افسر اور اہلکار سوار تھے۔ سی آر پی ایف کے انسپکٹر جنرل نیلین پربھات نے دعویٰ کیا کہ یہ منصوبہ بندی خودکش حملہ تھا اور مارے گئے دونوں حملہ آور پاکستانی شہری ہیں ان کا تعلق لشکر طیبہ کے ساتھ ہے۔ اس دوران لشکر طیبہ کے ترجمان ڈاکٹر عبداللہ غزنوی نے سرینگر میں جاری بیان میں اعتراف کیا ہے کہ تنظیم کے دو فدائی حملہ آور اس حملہ میں شہید ہوئے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ حملے میں 13 سی آر پی ایف اہلکاروں کو ہلاک کیا گیا، انہوں نے کہاکہ مزید حملے کریں گے۔ حملے کے بعد مقامی لوگوں کی بڑی تعداد پام پورہ کی شاہراہ پر جمع ہوگئی لوگوںنے فوج اور حکومت کیخلاف احتجاجی مظاہرے کئے۔
کشمیری اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ بھارت کشمیریوں کی اس جدوجہد کو دہشتگردی قرار دیتا ہے۔ اس کو دبانے کیلئے اس نے مقبوضہ وادی میں ساڑھے سات لاکھ فوج داخل کر رکھی ہے۔ پولیس اور سی پی آر ایف جیسے ادارے بھی کشمیریوں کی زندگی عذاب بنانے اور ان کا عرصہ حیات تنگ کرنے کیلئے بھارت کی سفاک سپاہ کے شانہ بشانہ ہیں۔ ان فورسز کو ٹاڈا،افسپا اور پوٹا جیسے ظالمانہ اختیارات سے لیس کر کے نہتے کشمیریوں پر ظلم و بربریت پہاڑ ڈھانے کی کھلی اجازت دی گئی۔ وادی میں آزادی کی بات کرنیوالے خود محفوظ ہیں نہ ان کے اہل خانہ۔ گھروں سے اٹھا کر نوجوانوں کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس میں اکثر موت کی لکیر پار کر جاتے ہیں۔ بچ جانے والے زندگی بھر کیلئے معذور ہو جاتے ہیں۔ یہ تشدد اور بربریت اس پیمانے پر ہوتی ہے کہ مرنیوالوں کو گڑھے کھود کر ان میں پھینک دیا جاتا ہے۔ مقبوضہ وادی سے بڑی تعداد میں اجتماعی قبریں دریافت ہو چکی ہیں۔
Violations of Human Rights
اب تک ایک لاکھ سے زائد کشمیری آزادی کیلئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔ بھارتی فوجی درندوں اور مقامی پولیس کے غنڈوں کے ہاتھوں خواتین کے ساتھ انفرادی اور اجتماعی زیادتی کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔ غیر ملکی این جی اوز اور اقوام متحدہ کی رپورٹس میں تصدیق اور اعتراف کیا گیا ہے کہ دنیا میں سب سے انسانی حقوق کی پامالی بھارت کے زیر قبضہ اس وادی میں ہوتی ہے۔ یہ سب کچھ عالمی برادری کے علم میں ہے مگر اس کے ضمیر میں بھارتی فورسز کی سفاکانہ کارروائیوں پر کوئی خلش پیدا نہیں ہوتی۔ اقوام متحدہ اپنی قرار دادوں کی پاسداری کرنے پر تیار نہیں۔ عالمی تھانیدار امریکہ حق اور سچ کا ساتھ دینے کے بجائے بھارت کی بے جا حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ اوباما نے اپنی انتخابی مہم کے دوران مسئلہ کشمیر حل کرانے کا بار بار ذکر کیا جب اقتدار میں آ گئے تو پاکستان اور بھارت پر مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرنے پر زور دینے لگے۔ برطانیہ جس نے تقسیم ہند کا ایجنڈہ ادھورہ چھوڑا اور جس کے بطن سے پاکستان اور بھارت کے مابین کشمیر ایشو نے جنم لیا وہ بھی دونوں ملکوں کو مذاکرات کے ذریعے مسئلہ کشمیر حل کرنے کا مشورہ دے رہا ہے۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی موجودگی میں مسئلہ کشمیر کے حل کی دیگر تجاویز کی ضرورت نہیں۔ پاکستان پھر بھی مذاکرات کیلئے تیار رہا ہے مگر بھارت نے مذاکرات کیلئے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس کی طرف سے مذاکرات کی میز ہمیشہ الٹائی گئی اور کسی نہ کسی بہانے سے مذاکرات کی کوششوں کو سبوتاڑ کیا گیا۔
اب مذاکرات کیلئے وہ حالات کو سازگار بنانے کیلئے پاکستان کو مشورے دیتا ہے۔ اس کی ڈکشنری میں حالات کی سازگاری کا جو مطلب ہے حالات اس کے مطابق ہونے لگتے ہیں تو کبھی سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ ہو جاتا ہے کبھی مالیگاں دھماکے ہوتے ہیں کبھی پارلیمنٹ، کبھی ممبئی حملوں، کبھی سمندری کشتی کی تباہی اور کبھی پٹھانکوٹ حملے کا ڈرامہ رچا کے ان کا الزام پاکستان پر لگا کر حالات میں کشیدگی پیدا کر دی جاتی ہے۔ بھارت کی بدنیتی کے باعث مذاکرات کیلئے سازگار حالات تو قیامت تک پیدا نہیں ہو سکتے۔ اب سری نگر کے قریب سنٹرل ریزرو پولیس کے قافلے پر حملے کا الزام بھی انڈیا کی طرف سے پاکستان پر لگایا جا رہا ہے۔ لائن آف کنٹرول پر بھارت نے باڑ لگا کر اسے سیل کر دیا ہے۔ بھارتی فورسز اس باڑ کے چپے چپے پر موجود ہیں۔ پاکستان سے ایسی کڑی نگرانی میں درانداز کیسے مقبوضہ کشمیر میں داخل ہو سکتے ہیں؟ لشکر طیبہ کا پاکستان میں نیٹ ورک موجود نہیں ہے۔ یہ مقبوضہ کشمیر سے اپریٹ کرتی ہے۔ حملے کی ذمہ داری اس کی طرف سے قبول کی گئی اور ایسے مزید حملے کرنے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا ہے۔ بھارت کی سات لاکھ فوج اگر باڑ کے باوجود بھی دراندازی نہیں روک سکتی تو بھارت اس نکمی فوج کو واپس بلا لے۔
India
اس پر روزانہ کروڑوں روپے ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ ان حالات میں کشمیریوں کو خودارادیت کا حق دینا ہی بھارت کیلئے بہتر ہے۔اپنے کام اور کاز کیلئے حریت تنظیمیں دشمن کو نقصان پہنچانے کیلئے موقع کی تلاش میں رہتی ہیں۔ ریزرو پولیس پر حملہ کٹھ پتلی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے ریاستی اسمبلی کے الیکشن کے روز کیا گیا۔ اسی روز گاہ کدل کے شہداء کی 25 ویں برسی تھی۔ آزادی کشمیر کی جدوجہد کو آج ایک بار پھر مہمیز مل رہی ہے۔ کشمیر میں گزشتہ چند سال سے حریت پسند پے در پے حملے کر رہے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی بڑی تعداد مسلح جدوجہد میں شامل ہو گئی ہے۔ پاکستان کی طرف سے حریت پسندوں کی عملی امداد کی گئی ہے اور نہ ہی ایل او سی باڑ کے ذریعے سیل ہونے سے ایسا ممکن ہے۔ مگر بھارت کی طرف بھارت کے علاوہ کشمیر میں ہونے والے ایسے واقعات کا الزام بھی پاکستان پر لگا کر زہر اگلا جاتا ہے۔ آج بھی بھارتی میڈیا، حکمران اور سیاستدان پاکستان کیخلاف زہر فشانی کر رہے ہیں۔ یہ بھارت کی پاکستان میں مداخلت پر پردہ ڈالنے کی بھی کوشش ہے، چورنال ایک طرف پاکستان پر الزام تراشی اور بہتان طرازی کی جاتی ہے دوسری طرف بھارتی وزراء مقبوضہ کشمیر میں حالات پر کنٹرول کرنے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ یہ بھارتی نیتاوں کی عجیب منافقت ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں جنگجووں کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے بھارتی امور دفاع کے وزیر مملکت کرن رینجیو نے کہا کہ فوج کو جنگجو مخالف کارروائیوں میں کامیابیاں مل رہی ہیں جس کے باعث جنگجووں پر دباو بڑھ رہا ہے۔ کشمیر میں سرحد پار سے دراندازی میں بدستور اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور زیادہ سے زیادہ جنگجو اس پار داخل ہونے کی کوشش میں ہیں۔ اندرونی سلامتی پر توجہ دینے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے تاہم انہوں نے کہا کہ جنگجووں کے خلاف آپریشن جاری رہیں گے اور اس میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔
اگر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کا سلسلہ یونہی جاری رہتا ہے تو حریت پسند جواب تو دیں گے۔ آخر بھارت مقبوضہ وادی میں کب تک کشت و خون کا سلسلہ جاری رکھے گا؟ پاکستان کا موقف اس حوالے سے واضح ہے جس کا ایک مرتبہ ذکر پھر بھارت میں پاکستانی سفیر عبدالباسط نے نئی دہلی میں پاکستانی ہائی کمشن کی طرف سے سرکردہ شخصیات کے اعزاز میں افطار ڈنر کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمسایہ ملکوں سے امن، پائیداری اور برابری کے تعلقات چاہتے ہیں، کشمیر سمیت تمام تنازعات کے حل سے خطے میں استحکام کا دور شروع ہو گا۔ ہم پوری دنیا میں امن چاہتے ہیں، دونوں ممالک میں کشیدگی سے پاک اور تعاون پر مبنی تعلقات کیلئے ملکر کام کرنا چاہئے، ہمیں اپنے تمام مسائل حل کرنا ہونگے۔ پاکستان پرامن ملک ہے اور امن پر یقین رکھتا ہے۔ پاکستان بھارت کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے، بھارت پاکستان دشمنی بند کرے۔ بھارت کو پاکستان میں مداخلت روکنی ہو گی۔ مسئلہ کشمیر پر پاکستان اور بھارت کے مابین تین بڑی جنگیں ہو چکی ہیں۔ اس مسئلہ کی موجودگی میں ایک اور جنگ کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ دونوں ملک نیو کلیئر پاور ہیں اور جنگ کی صورت میں ہولناک تباہی ہو گی۔ اس صورت حال سے بچنے کیلئے تنازع کا پرامن حل ضروری ہے۔ مسئلہ کشمیر بھارت کی توسیع پسندانہ ذہنیت سے پیدا ہوا اور اس کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس کا حل طول پکڑ رہا ہے۔ ہر واقعہ کا ملبہ پاکستان پر ڈالنا بھارت کی فطرت ہے۔ بہتر ہے وہ مسئلہ کشمیر کے حل کی طرف آ جائے۔