عام انتخابات کے دوران ن لیگ نے پنجاب سمیت پورے ملک کے عوام کو سہانے خواب دکھائے لیکن ایک سال میں ان کی کارکردگی کا پول کھل چکا ہے اور جتنے قرضے ماضی کی حکومت نے پانچ سالوں میں لئے موجودہ حکمرانوں نے اس سے زیادہ ایک سال میں قرضے لیکر پوری قوم کو اربوں روپے کا مقروض کر دیا ہے۔ تحریک انصاف کے رہنما و اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید نے پنجاب حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کے حوالہ سے حقائق نامہ جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پنجاب میں موجودہ حکومت کے ایک سال کے دوران پنجاب میں جرائم میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
چوری اور ڈکیتی کے پنجاب میں روزانہ 12 سے 14 ہزار واقعات ہو رہے ہیں اور اب تک موجودہ حکومت کے 1 سال کے دوران پنجاب میں 12 6افراد نے مہنگائی اور بیروزگاری اور دیگر مسائل کے ہا تھوں تنگ آ کر خود کشی کی ہے او ہر گزرتے دن کے ساتھ خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جسکے اصل ذمہ پنجاب اور مر کزی حکمران ہیں ‘ ن لیگ نے کشکول توڑنے کا وعدہ کیا لیکن آج ان کے کشکول کا سائز ایوان وزیراعظم سے رائیونڈ ہاؤس تک پہنچ چکا ہے۔
پنجاب میں اگر امن و امان کی بات کی جائے تو یہاں پر رکن اسمبلی سمیت کوئی بھی محفوظ نہیں اور ن لیگ کے رکن اسمبلی رانا جمیل کو دن دیہاڑے اغواء کر لیا گیا اور پنجاب کے حکمران اور پولیس سوئی رہی’ نااہل حکمرانوں نے صوبہ کو پانچ سو ارب روپے کا مقروض کر دیا ہے بیڈ گورنس اور نااہلی کی وجہ سے ترقیاتی بجٹ کا 40 فیصد استعمال نہیں ہو سکا اور ریونیو اکٹھا کرنے کا ہدف بھی گزشتہ سال کی نسبت تقریبا 40 فیصد کم رہا ہے۔
پنجاب میں اغواء برائے تاوان کی تقریبا 6 ہزار وارداتیں ہوئی ہیں جن میں مسلم لیگ ن کے رکن پنجاب اسمبلی رانا محمد جمیل بھی شامل ہیں اور امن و امان کی صورتحال اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ لاہور ہائیکورٹ کے سامنے فرزانہ نامی خاتون کو اینٹیں مار مار کر قتل کر دیا گیا اور پولیس تماشہ دیکھتی رہی۔
حقائق نامے میں مزید کہا گیا کہ 1 سال کے دوران پنجاب میںخواتین کے اغواء کے 1786′ قتل کے 846 اور اجتماعی زیادتی کے 846 کیسزبھی سامنے آئے ہیں’ بچوں کے ساتھ بھی زیادتی کے 102 سے زائد واقعات ہوئے اور لاہور میں مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کے قیام کے بعد پانچ سالہ سنبل زیادتی کیس بھی قوم کے سامنے موجود ہے اور حکمران 8 ماہ سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود سنبل زیادتی کیس کے ملزمان کو گرفتار نہیں کر سکے جو حکمرانوں کی سب سے بڑی ناکامی ہے’حکو مت ابھی تک سید یوسف رضا گیلانی اورسلمان تاثیر کے اغواء ہونیوالے بیٹے کو بھی بازیاب نہیں کر سکی ‘ماڈل تھانے کہاں ہیں؟
پو لیس عوام کے تحفظ کی بجائے سیاسی مخالفین کے جلسے ناکام بنانے پر لگی ہوئی ہیں پو لیس سے ایلیٹ تک ہر کوئی حکمرانوں کی سیکورٹی پر لگی ہوئی ہے ‘ 2013 میں 2576 دوران ڈکیتی آبروریزی کے کیس رجسٹرڈہوئے ہیںان واقعات میں رحیم یا ر خان 222 واقعات کے ساتھ پہلے نمبراور صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ خا ن کا شہر فیصل آباد 214 واقعات کے ساتھ دوسرے اور وزیر اعلی کا شہر لاہور 196 واقعات کے ساتھ تیسرے نمبر پر ہے’ پنجاب میں معصوم بچیوں کے ساتھ زیادتی کے واقعات عام ہیں ‘ہرسال پنجاب میں 1 ہزار سے 15 سوقتل کی اندھی واردتیں ہو تیں ہیں۔
Karachi
اب کراچی کے بعد لاہور میں بھی بوری بند لا شیں مل رہی ہیں لاہورکے علاقہ با غبانپورہ ‘شفیق آباد میں بوری بند لاشیں مل چکی ہیں ‘لاہور’فیصل آباد’گوجرنوالہ ‘روالپنڈی میں بھتہ ددیئے بغیرتاجرعزت کے ساتھ کاروبار نہیں کرسکتے ‘فیصل آباد میں ہرچوتھا تاجرکسی نہ کسی شکل میں بھتہ د ینے پر مجبور ہے ‘جب سے موجودہ حکمران برسراقتدارآئے ہیں ‘اب تاوان کی رقم آن لائن بیکنگ سسٹم کے تحت ادا ہورہی ہے’غواء ہونیوالے افرادکے اہل خانہ پو لیس کو رپورٹ کر نے کی بجائے خود ہی اغواء کنندگان سے مک مکا کرلیتے ہیں ‘پنجاب میں (ن) لیگ کی حکو مت نے 2014 میں 93 ارب 71 کروڑ اور سپلمنٹری گرانٹ کی مدمیں 6 ارب روپے پو لیس پر خرچ کیے مگر لاہور میں 25 ہزار اشتہاری اور پورے صوبے میں ڈیڑھ لاکھ اشتہاری ہیں جنہیں پولیس پکڑ نے میں ناکام ہو چکی ہے۔
‘خواتین کیلئے جتنا صوبہ پنجاب آج غیر محفوظ ہیں پہلے کبھی نہ تھا ہر سال خواتین کے اغواء کے کم ازکم 2 ہزار واقعات ہوتے ہیں اور 900 خواتین قتل ہو تیں’لاہور میں ماہانہ 250 گاڑیاں 600 موٹر سائیکل چھنے یا چوری ہوتے ہیںجن کی مالیت اربوں روپے میں ہے’جنوبی پنجاب میں حالات ناقابل بیان ہو چکے ہیں ‘ ایک سال میں میڈیا رپورٹس کی مانٹیر نگ کی ہے جس کے مطابق صرف لاہور میں ڈکیتی اور سٹر یٹ کرائم کی روزانہ نہ صرف 100 وارداتیں جبکہ پورے پنجاب میںڈ کیتی کی روزانہ 3500 سے4ہزار وارداتیں ہوتی ہیں ‘پنجاب میںماڈل تھانے کہاں ہیں ؟پو لیس عوام کے تحفظ کی بجائے سیاسی مخالفین کے جلسے ناکام بنانے پر لگی ہوئی ہے ایلیٹ فورس ایلیٹ حکمرانوں کے تحفظ تک محدود ہے’9 جون 2012 کو وزیر اعلی پنجاب نے اعلان کیا تھا کہ کلوز سر کٹ کیمروں کے ذریعے کرائم سین واچ کر یں گے 2 سال بعد پھر اسی انقلابی اعلان کو دہرا رہے ہیں حقیقت ہے۔
پنجاب اس وقت علاقہ غیر میں تبدیل ہو چکا ہے اور عوام کا جان ومال اللہ کے سہارے پر ہے اور حکمران بیان بازی تک محددود ہیں(ن) لیگ کی حکو مت نے صوبے میں تھانے کلچر کے خاتمے کا نعرہ بھی لگائے مگر آج بھی تھانوں میں رشوت کے بغیر ایف آئی آر کا اندراج ممکن نہیں اور تخت لاہور کے حکمرانوں کے اپنے شہرے میں بے گناہ لوگوں کو تھانوں میں تشدد کا نشانہ بنا کر قتل کیا جا رہا ہے حکمرانوں کو ان قاتلوں کا بھی حساب دینا پڑیگا۔ صحت اور تعلیم کسی بھی عوام اور صوبے کی تر قی اور خوشخالی کیلئے لازم ہیں اور پنجاب میں (ن) لیگ کی حکو مت نے 2013/14کے بجٹ میں تعلیم کا بجٹ مجموعی طور پر 238 ارب روپے رکھا جسکے تحت دیہی یونین کونسلیں جہاں پر طالبات کے لئے ہائی سکول موجود نہیں ہیں وہاں پر موجودہ ایلیمنٹری سکولوں کو بھی اپ گریڈکر نا لیکن آج تک اس منصوبے پر بھی عمل نہیں ہوسکا اور آج بھی40ہزار کے قر یب سکولوں میں بنیادی سہو لتیں اور چار دیواری تک موجود نہیں۔
اگر مہنگائی کا تناسب دیکھاجائے تو 2013ء میں دال چنا کی قیمت 60 روپے کلو جبکہ آج 75 روپے’ آٹا 650 روپے سے 750′ گھی 970 روپے فی ڈبہ سے 1100 روپے’ لال مرچ 140 روپے کلو سے 240 روپے کلو’ دال مونگ 140 روپے سے 160 روپے کلو ہو گئی جبکہ ثابت مسر 80 روپے سے بڑھ کر 105 روپے کلو’ خشک دودھ فی ڈبہ 560 روپے سے 720 روپے دہی 60 روپے سے 85 روپے’ مشروبات کی قیمت میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ کھلا دودھ 50 روپے کلو سے 70 روپے کلو ہو چکا ہے اور موجودہ حکومت کے دور میں ہی بجلی کا گھریلو یونٹ 14 روپے سے 22 روپے تک پہنچ چکا ہے۔اس حقائق نامہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب میٹر و بس لاہور نہیں پنجاب کے دس شہروں میں چلا لیں اسے عوام کو کوئی فرق نہیں پڑیگا،عوام کو مہنگائی،غربت،بے روزگاری،بدامنی ،دہشت گردی سے حکومت نے نجات دلانا ہوگی۔