تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید اداروں کے گٹھ جوڑ کے تحت بہت پہلے فیصلہ کیا جا چکا ہے کہ ن لیگ کو مارچ2017 سے پہلے فراغت کے عمل سے بہر صورت گذارنا ہے۔اس سازش کو سینئر سیاست دان جاوید ہاشمی سالوں پہلے بے نقاب کر چکے ہیں اور بار بار میڈیا پر آکر اس بات کو دہراتے ہیں۔اگرادارے سمجھتے ہیں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں تو انہیں ان کیبار بار کے چیلنج کے باوجود اداروں نے حقیقتِ حال پر بات کرنے کے لئے طلب کیوں نہیں کیا ۔ یہ بات چغلی کھا رہی ہے کہ دال میں سب کچھ ہی کالا ہے۔اگر جاوید ہاشمی جھوٹے ہیں تو عدالت سوو موٹو ایکشن لے کر انہیں طلب کیوں نہیں کرتی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ اگر جاوید ہاشمی اسکرین پر آگئے تو بڑے بڑے پردہ نشین بے نقاب ہو کر اپنی جابنداری کو چھپا نہیں سکیں گے۔ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اسٹابلشمنٹ نے تقریباَ اپنے حساب سے دس سال جمہوریت کو دیدیئے ہیں اب مزید انتظار ان کے لئے الجھن پیدا کر رہا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ کچھ ججز اور بعض جنرلز ملک میں موجودہ جمہوری نظام کو شائد تبدیل کرکے ایک گھسا پٹا صدارتی نظام ججز اور جنرلز کے امبریلا تلے اپنے پیٹ سیاسی مہروں کے ذریعے اس ملک پر مسلط کرانے کی کوششوں میں مصروف محسوس کئے جا رہے ہیں۔اس دوران یہ بھی مشاہدہ دنیا نے کیا کہ عدلیہ کے فیصلوں کے بجائے جج بولتے ہوئے سُنے گئے۔یہ دنیا کا اصول ہے کہ منصف نہ تو جانبدار ہوتا اور نہ ہی متعصب ہوتا ہے۔مگر پانامہ کیس کے حوالے سے ساری دنیا نے ججز تعصب بھی محسوس کیا اور ان کی جانبداری کا بھی نوٹس لیے رہی ہے۔نواز شریف کے خلاف فیصلہ آنے کے بعد ساری دنیا کے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے پاناما کی بجائے اقامہ پر اپنے تعجب کا بر ملا اور کھل کراظہا ر بھی کیا۔جس سے پاکستان کے نظامِ عدل پر زبردست انگشت نمائی کی گئی۔ جو ہر پاکستانی کے لئے بھی لمحہِ فکریہ ہے۔
دو اکتوبر کو ہونے والے ایک اَن ہونے واقعے پرصدر پاکستان بار کونسل رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں سیول فیبرک کو جس طرح تار تار کیا جاتا رہا ہے اس کی کہیں اور نظیر نہیں ملتی ہے۔احتساب عدالت میں بھی جس طرح رینجرز خود آگئی ،سیول اتھارٹی کو کھلم کھلا چیلنج ہے۔اگر یہ ہی کچھ ہونا ہے تو پھر ملک میں سیول انتظامیہ رکھنے کا کوئی فائد ہ نہیں ہے۔ان حالات میں کسی طرح بھی سیول حکومت نہیں چلائی جا سکتی ہے۔اگر احتساب عدالت میں نواز شریف خاندان کا وکیل دباؤ میں ہے تو پھر شفاف ٹرائیل نہیں کہلائے گا۔اگر وکیل کی پور ی ٹیم اس کے ساتھ نہیں ہے تو اسے ایسا ما حول نہیں مل رہا ہے کہ و ہ آزادانہ کام کر سکے۔اس معاملے میں وزیرِ داخلہ کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتیں عوام کی ملکیت ہیں اب کوئی آمر آئے یا سُپریم کورٹ کا فیصلہ ہو،نوز شریف سے رشتہ ٹوٹنے والا نہیں۔سُپریم کورٹ میں کوئی اپنی ذاتی خواہش پر سیاسی جماعت میں تبدیلی کا خوہاں ہے تو وہ پاکستان کے آئین اور پاکستان کا دشمن ہے۔70سال سے بہت ہوچکا ڈو مور کہنے والوں کو پیغام دیتا ہوں ’’بہت ہوچکانو مو رنو مور‘‘اس ضمن میں سعد رفیق کا بھی کہنا تھا کہ احتساب عدالت میں رینجرز نے آکر وہ کچھ کیا جو نہیں کرنا چاہئے تھا۔کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں ،انہیں ادارہ نہیں سمجھ لینا چاہئے ہمیں یہ تکلیف نہیں پہنچانی چاہئے تھی۔پیر کے واقعے کی انکوائری ہونی چاہئے۔نواز شریف کی جانب سے پہل نہیں کی گئی۔یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ روز کوئی رگڑا لگا جائے اور ہماری آہ بھی نہ نکلے ۔
عدالت کے احاطے میں تالا بندی کے خلاف کاروائی کے لئے حکومت نے آرمی چیف کو خط لکھ دیا اور ڈی جی رینجرز سے بھی وضاحت طلب کیگئی ہے۔ مگر وہ برگیڈیئر اس قدر متکبر ہیں کہ اپنے موجود ہ بوس کو کوئی اہمیت دینے کے لئے تیار ہی نہیں ہیں۔انتظامی انکوائری کے نتیجے میں یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ سیول انتظامیہ کی درخواست کے بغیر رینجرز نے عدالت کا کنٹرول کس کے کہنے پر سنبھالا؟حکومت کی جانب سے توقع کی جا رہی ہے کہ آرمی چیف ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کریں گے۔اس حوالے سے سے وزیر اعظم(سابق)کا کہنا ہے کہ ہم نے سقوطِ مشرقی پاکستان سے کوئی سبق نہیں سیکھا،ڈکٹیٹرز کی آئین شکنی کو جائز قرار دے کر وفاداری کے حلف اٹھائے گئے۔آئین شکنی کرنے والے بعض منصفین کی نظر میں صادق بھی اور امین بھی رہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حاکمیت عوام کی امانت ہے۔اس میں خیانت بند کی جائے ۔انہوں ایک مرتبہ پھر کہا کہ تنبیہ کر رہا ہوں (اداروں نے) چال نہ بدلی تو پاکستان معاف نہیں کرے گا۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ عدالتی فیصلوں سے لیڈر ختم نہیں کئے جا سکتے ہیں۔ہم نے فیصلے پر عمل کیاعوام اور تاریخ اسے قبول نہیں کریں گے۔
سات گھنٹے کی اسپشل فوجی جنرلز کی میٹنگ کے بعدکوئی پریس رلیز نہیں آئی ۔پریس کانفرنس میں فوجی ترجمان کا کہنا تھاکہ فوج آئینی حکم ماننے کی پابند ہے۔ کوئی فرد یا ادارا پاکستان سے بالا تر نہیں۔جے آئی ٹیم میں ہمارا کردار آئینی تھا؟ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ سکورٹی خد شات پر رینجرز لگائی گئی ضروری نہیں کہ ہر حکم تحریری ہو؟ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیچھے مڑ کے دیکھا تو پیچھے ہی دیکھتے رہ جائیں گے مگر اگلے ہی جملے میں وہ پیچھے کے پندرہ سال کا خود ہی ذکر فرماتے سنے گئے۔جنرلز کی میٹنگ کے بارے میں جب اُن سے سوال کیا گیا توان کا جواب تھا کہ خاموشی کی بھی زبان ہوتی ہے؟ان کے اس جواب میں وہ تمام خدشات پنہا تھے جو آج جمہوریت کو درپیش ہیں۔ پانامافیصلے کے حوالے سے ماہر قانون کامران مرزا نے میڈیا پرکہا ہے کہ نواز شریف اور عمران خان کے کیس تقریباََیکساں ہیں۔اگر تین رکنی بینچ عمران خان نااہلی کیس سن رہا ہے تو پانچ رکنی بیچ کا فیصلہ ان پر بائنڈنگ ہے۔ سپُریم کورٹ کا احتساب عدالت پر مانیٹرنگ جج مقرر کرنا مناسب نہیں ہے۔سُپریم کورٹ کو رینجرز کی طرف سے احتساب عدالت کو ٹیک اُور کرنے پر از خود نوٹس لینا چاہیئے ۔احتساب عدالت میں رینجرز کی از خود تعیناتی بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔جس نے عدالت میں وزیرِ داخلہ کو بھی اندر جانے نہیں دیا۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ نواز شریف کی نظرِ ثانی کی اپیل مسترد ہو جا نے بعد پاناما کیس کا معاملہ تاریخ کے حوالے ہوچکا ہے۔ اور آنے والا وقت ہی اس فیصلے کے بارے میں فیصلہ دے گا۔
ن لیگ کے وکیل اکرم شیخ نے عمران نا اہلی کیس میں اپنے دلائل میں دونوں کیسوں کی مماثلت بار بار بتاتے رہے ہیں مگر عدالت کے موقف سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ اس کیس میں انکا موقف ماننے کو تیار نہیں ہیں۔جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ پاناما کیس میں بدنیتی کو نہیں دیکھا گیا وہاں اس بات پر فیصلہ دیا گیا کہ حقائق چھپائے گئے۔ اکرم شیخ کہتے رہے کہ پاناماکیس میں نیت نہیں دیکھی گئی ۔عمران خان کے وکیل مان چکے ہیں کہ عمران ،نیازی سروسز کے بینیفشری اونر ہیں لیکن یہ کمپنی انہوں نے 2013میں ظاہر نہیں کی تھی۔ یہ بات ایک سوالیہ نشان ہے کہ اکرم شیخ عمران نا اہلی کیس میں بار بار مماثلت کے حوالے دیتے رہے لیکن سُپریم کورٹ کے ججز اس وقت صریحاََ ان کے دلائل کو رد کرتے رہے۔اکرم شیخ نے عدالت کو یہ بھی بتایا کہ پاناما اور موجودہ مقدمے میں فریقین ایک ہی ہیں اس کیس میں پاناما فیصلہ بھی قابلِ عمل ہے۔جسٹس عمر بندیال کا کہنا تھا پاناما کیس باپ بیٹے کے ایف زیڈ ای کمپنی کے مالک اور بورڈ کے چیئر مین (نواز شریف کے بیٹے) کے درمیان تھا ۔ بیٹے نے باپ کے ساتھ دس ہزار درہم طے کر کے نا دئے تو والد نا اہل ہوگئے۔عجیب بات یہ کہ جمائمہ عمران کی بیوی اور عمران کے مابین ہونیوالا پیسے چھپانے کامعاملہ مختلف بتایا جارہا ہے؟
دوسری جانب یورپی میڈیامیں یہ خبریں عام ہیں کہ نواز شریف کا پارٹی سربراہ بننا بے حد ڈرامائی موڑ کی نوید دے رہا ہے۔انگلینڈ کااخبارفنانشیل ٹائمز لکھتا ہے کہ پاکستان کی حکمران جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے نواز شریف کی واپسی دھماکہ خیز اور بہادرانہ انداز میں ہوئی ہے۔واشنگٹن پوست لکھتا ہے کہ نواز شریف کے نزدیک پاکستان کا آئین اور جمہوریت خطروں میں گھری ہے۔جولائی کے فیصلے کے بعد مسلم لیگ اور ان کے خاندان کو سیاسی اور قانونی چیلنجوں کا سامنا ہے۔یہ بڑی بات ہے کہ انہوں نے پاکستان واپس آکر طاقتور اسٹابلشمنٹ اور اس کے سویلین حواریوں کو چیلنج کیا ہے۔انہوں نے ان لوگوں کو بھی غلط ثابت کردیا جو کہتے تھے نواز شریف لندن سے واپس نہیںآئیں گے۔وہ آج بھی پاکستان کے ووٹرز میں مقبول ہیں۔عدلیہ کئی ماہ سے نواز شریف کو گھیرنے میں مصروف ہے۔لیکن اس وقت پاکستان کے عوام کی اکثریت نواز شریف کے ساتھ ہے۔بہر حالیہ خیال عام ہے کہ دو اکتوبر واقعے نے اداروں کے ٹکرؤ کی کوشش بے نقاب کردی۔
Shabbir Ahmed
تحریر : پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد خورشید 03333001671 shabbirahmedkarachi@gmail.com