تحریر : تنویر احمد واقعات شاہد ہیں کہ میاں محمد نواز شریف صاحب نے اپنی پہلی وزارت عظمیٰ کے دور میں اپنی پارٹی کے پارلیمانی اجلاس میں بھی کہا تھ اقادیانیوں سے متعلق اگر ترمیم آئین سے ختم کردی جائے تو ہمارے سارے قرضے معاف ہو جائیں گے۔ اس کے لیے امریکہ تیار ہے، وہ تو جناب راجہ ظفر الحق صاحب ڈٹ گئے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں؟ جو آپ نے کہا اس کے رد عمل کا بھی آپ کو اندازہ ہے؟ تو اس پر نواز شریف صاحب طرح دے گئے کہ نہیں وہ تو میں نے ویسے ہی کہا۔ جناب نواز شریف صاحب نے قادیانیوں کو اپنا بھائی کہا۔ رحمت عالم ۖ کے ازلی ابدی مخالفین، ختم نبوت کے منکرین اور اہانت رسولۖ کرنے والوں کو اپنا بھائی کہنے کا کام جناب میاں صاحب نے ہی انجام دیا۔
میاں محمد نواز شریف نے قائداعظم یونیورسٹی سے ملحقہ فزکس کے ادارہ کا نام ڈاکٹر عبدالسلام قادیانی کے نام پر رکھا، جس عبدالسلام قادیانی نے پاکستان کی سرزمین کو لعنتی کہا۔ ان قادیانیوں کے لیے میاں صاحب کا یہ نرم گوشہ اور علامہ اقبال کا جواہر لال نہرو کو کہنا کہ قادیانی اسلام اور ملک دونوں کے غدار ہیں۔ قادیانیوں کے بارہ میں علامہ اقبال کا فرمان اور میاں محمد نواز شریف کے عمل میں واضح تضاد آخر کیوں؟
مبینہ طور پر نواز شریف صاحب نے حالیہ دور اقتدار میں اپنا پرسنل سیکرٹری قادیانی کو لگایا اور پھر جناب خاقان عباسی صاحب کے وزیراعظم بننے پر اسے نواز شریف نے پابند کیا کہ اس پرسنل سیکرٹری کو تبدیل نہ کیا جائے۔ اب عباسی صاحب کے ساتھ امریکہ کے دورے پر گیا ہے اور یہ کہ اب اسے ورلڈ بینک بھیجنے کی تیاری ہورہی ہے۔
خوشاب میں پہلے ضلعی پولیس آفیسر (ڈی پی او) خدا بخش نتھو کہ قادیانی کو لگایا گیا۔ میاں شہباز شریف صاحب کے پاس ضلع کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کا وفد گیا کہ قادیانی کو تبدیل کیا جائے۔ چھوٹے میاں صاحب نے فرمایا کہ کیا تم نے اس کے پیچھے نمازیں پڑھنی ہیں؟ اس پر ممبران نے کہا کہ ایک ضلع قادیانی افسر کے رحم و کرم پر چھوڑنا بھی قرین انصاف نہیں؟ میاں صاحب چپ تو ہوگئے، لیکن تبادلہ کے مطالبہ کو تسلیم نہ کیا۔ خدا بخش نتھو کہ قادیانی کی فرعونیت کا اندازہ کریں کہ محکمہ انہار کے ایکسین کو اپنے ہاتھ سے پیٹا۔ صوبہ بھر میں محکمہ انہار کے ملازمین نے احتجاج کیا، خدا بخش نتھوکہ قادیانی معطل ہوا، قبلہ شہباز شریف صاحب نے اسے بحال کیا، ترقی دی اور ڈی آئی جی بنادیا اور پھر خدا بخش نتھوکہ کی جگہ وقار الحسن نتھوکہ قادیانی کو خوشاب کا ڈی پی او لگادیا گیا جو قادیانی بھی ہے، خدا بخش نتھوکہ کا بھتیجا اور داماد بھی ہے۔ سالہا سال سے خوشاب ضلعی کا ضلعی پولیس آفیسر یکے بعد دیگرے قادیانی چلا آرہا ہے۔ خوشاب میں اٹامک انرجی کا اہم شعبہ کام کررہا ہے اور قرب و جوار میں قادیانی آبادیاں ہیں اور پاکستان کے ایٹم کا ماڈل اور ایٹمی راز عبدالسلام قادیانی نے امریکا کو مہیا کیے تھے۔ ان تمام تر باتوں کے باوجود میاں صاحب کا خدا بکش نتھوکہ کی ناز برداری کرنا محض اس لیے کہ خدا بخش نتھوکہ میاں شہباز صاحب کا کلاس فیلو ہے۔
سانحہ دو الیمال میں قادیانیوں کی سپورٹ اور مسلمانوں کو تختہ مشق بنانے کیلئے جو کچھ سرکاری سطح پر ہوا یا ہورہا ہے لگتا ہے کہ حکومت نے قسم کھالی ہے کہ مسلمانوں کو قادیانیوں کے سامنے سرنگوں کرنا ہے۔
عید سے قبل جناب شہباز شریف صاحب سے وفاق المدارس کا وفد مولانا قاری محمد حنیف جالندھری صاحب کی سربراہی میں اور جمعیت علماء اسلام کا وفد مولانا فضل الرحمن صاحب کی سربراہی میں ملا۔ پنجاب حکومت کے سربراہ نے وعدے کیے لیکن ایک بھی وعدہ کا ایفا نہ کیا، نہ ایک عالم دین کو فورتھ شیڈول سے نکالا گیا نہ ایک مدرسہ کو کھالوں کے سلسلہ میں سہولت دی گئی۔ لگتا یہ ہے کہ حکومت نے تہیہ کررکھا ہے کہ جھوٹے وعدے کیے جائو، ہاں میں ہاں ملائے جائو لیکن ان کا مطالبہ ایک بھی تسلیم نہ کرو۔
اب حال ہی میں قومی اسمبلی سے انتخابی اصطلاحات کا جو بل منظور کرایا گیا ہے اس میں اسمبلی الیکشن کے لیے امیدواران کو حلف نامہ جمع کران اپڑتا تھا کہ میں حلفیہ کہتا ہوں۔۔۔۔ اب اس عبارت کو یوں بدل دیا کہ میں اقرار کرتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ آخر ختم نبوت کے حلف نامہ کو اقرار نامہ میں تبدیل کرنے کی کیا ضرورت پیش آئی؟ میرے خیال میں میاں صاحبان اتنے سادہ نہیں ہیں کہ وہ حلف نامہ اور اقرار نامہ کے فرق کو نہ سمجھتے ہوں۔ یہ جو کچھ بھی ہورہا ہے ایک گہری سوچ اور خطرناک چال کا حصہ ہے۔ قادیانیوں کو رعایت دینے کے لیے اور ختم نبوت سے متعلق ترمیم کو غیر موثر بنانے کیلئے جو کچھ ہوسکتا ہے۔ حکومت موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی۔ یہ بلاوجہ نہیں اس کے پردہ کے پیچھے چھپے ہوئے ہاتھوں کو غیر موثر بنانا ضروری ہے۔ لگتا ہے کہ میاں محمد نواز شریف نے ان تمام حالات سے کوئی سبق نہیں سیکھا، قادیانیت نوازی کی نحوست نے ان کو دیدہ عبرت بنائے بغیر نہیں چھوڑنا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پاکۖ کے غضب سے ہم پناہ چاہتے ہیں۔