ذرا سوچیں؟

Defence Day

Defence Day

ہر سال کی طرح یومِ دفاع بڑے جوش و خروش سے منایا گیا ـ سب کچھ بھول کرہم نے کبھیٌ غور کیا ؟ اس وقت وطنِ عزیز کس نہج پر ہے ؟ معاشی بد حالی کا عالم کیا ہے؟ درخشاں مستقبل کی جانب کس نے کتنا سفر کیا؟ ہم کس قوم کی حیثیت سے ابھر کر سامنے آئے ہیں ؟ ہمارا دنیا کے نقشے پر مقام کیا ہے؟ قیام پاکستان کے بعد نصف سے زیادہ صدی گزرنے کے بعد ہم کہاں کھڑے ہیں؟

ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ ہر طرف لاقانونیت کرپشن ذخیرہ اندوزی ٹارگٹ کِلنگ رشوت قتل و غارت اقربا پروری جیسے غیر اخلاقی افعال اتنی سرعت سے کیسے ہمارے معاشرے میں حلول کر گئے ـ ایسے شر پسندوں کا ہماری حدود میں داخل ہو جانا نسلی و علاقائی فرقہ وارانہ تعصبات گلو بٹ جیسے غنڈے انسانی حقوق کی پائمالی دشمن سے ہاتھ ملانا اور اپنوں کو بے رحمی سے قتل ہوتے دیکھنا اور خاموش رہنا کب سے ہماری سرشت میں شامل ہو گئی ـ

حال ہی میں اس کی روشن مثال فلسطین پے ہونے والی اسرائیلی ظلم و بربریت ہے جو ہم سب نے منہ پر قفل لگا کر ایک تماشائی کی حیثیت سے دیکھی ـ کٹے پھٹے انسانی جسم ہمارے لئے کوئی وقعت نہیں رکھتے ـ ہم سمجھتے ہیں دو سجدوں سے دو چار عمرے کرنے سے ہم رب کو منا لیں گے ـ ہم اتنے منافق سخت دل اور ظالم ہوچکے ہیں کہ اتنی لاشوں کے ڈھیر دیکھ کر پھر بھی سج سنور کے عیدوں کے فنکشن اپنی چوڑیوں کی جھنکار سے کھنکھاتی ہنسی سے مناتے رہے ـ اس ہنگامہ پرور پُرشور زندگی کی رونقوں میں ہم دور سنائی دینے والی چیخوں کو دبانے میں کامیاب ہو گئےـ

Women

Women

یہ بھول کر بموں کی برستی ہوئی موسلا دھار بارش کے ساتھ گولیوں کی گھن گرج سے کتنے بچے یتیم کتنی خواتین بیوہ ہوئیں اور کتنی ماؤں کے لعل گئے ـ کفِ افسوس سے ہاتھ ملتے ہوئے ہم مذہب کے نام لیوا ہونے کے دعویدار ہم آج مذہب تو کیا انسانیت کے بھی قابل نہیں ہیں ـ لیکن ہمیں اس سے کیا؟ دو چار غریبوں کو کھانا کھِلا کر ہم اس کا کفارہ ادا کر کے اپنے اس گھناؤنے عمل سے بری الذمہ ہو جائیں گےـ

الغرض کس کس کو شمار کریں کس کس نظام کی بربادی کا رونا روئیں 1947 سے لے کر اب تک یہ ملک غلط ہاتھوں میں جا کر کتنوں کا لہو پی چکا ہےـ مظلوموں کا بیواؤں کا مسکینوں کا انصاف کے نام پرعدالتوں کے باہر اینٹوں سے مارے جانے والوں ک ـ روٹی کی خاطر عزت بیچنے والوں کا غربت و افلاس سے تنگ اپنے جگر کے ٹکڑے بیچنے والوں کا فاقہ زدہ عوام کی آہ وفغاں کاـ

ہمارے آباء واجداد کے خون کے قطروں سے سینچے ہوئے اس ملک کو ہم نے مل کر تابناک بنانا ہےـ فیصلہ ہمارے نوجوان کے ہاتھ میں ہےـ اس کو ایک طاقتور مضبوط و مستحکم پاکستان بنانا ہے یا دنیا کے نقشے پر ایتھوپی کی جگہہ لینے والا بھوک و ننگ سے بے حال ایک پسماندہ ملک بنانا ہےـ

فخرسے اپنے شملے اونچے کرنے والا یا گردنیں جھکا کر ہاتھ میں کشکول پکڑ کر ڈالر ڈالر کی رٹ لگانے والا؟ اب بھی وقت ہے اس کی کایا پلٹنی ہے اور سبز ہلالی پرچم کو سرخُرو کرنا ہے ـ سوچیں ذرا سوچیں کیا یہ وہی پاکستان ہے ؟ جو بانی پاکستان قائد اعظم کی سوچوں کا محور و مرکز تھا؟

Aneela Ahmed

Aneela Ahmed

تحریر: انیلہ احمد