تحریر: محمد عتیق الرحمن، فیصل آباد آج لکھنے کو بالکل بھی دل نہیں کررہا دل ہے کہ پھٹا جا رہا ہے، پے درپے واقعات نے اندر تک توڑ دیا ہے عین عید سے قبل پاکستانی سرحد پر بھارتی فوج کی فائرنگ سے پاکستانیوں کی شہادتیں، مقبوضہ کشمیر میں عید کے دن پاکستان کے حق میں ہونے والے احتجاج پر بھارتی فوج کے مظالم اور پاکستانی آموں کے تحفے پر مودی کی طرف سے لاشوں کے تحفے اور اب یعقوب میمن کو پھانسی۔ یعقوب میمن کہ جن پر 1993ء میں ممبئی حملوں کی مالی معاونت کرنے کا الزام ہے۔
ان سمیت گیارہ لوگوں کو گرفتارکیا گیا جب کہ پھانسی صرف اور صرف یعقوب میمن کو دی گئی جبکہ باقی دس افراد کی سزا عمرقید میں بدل دی ہے جو کہ بھارتی انصاف کو دنیامیں آشکارکرتاہے ۔جمعرات کو یعقوب میمن کی 54سالگرہ بھی تھی ۔ان کو عین ان کی سالگرہ پر پھانسی دے کر بھارتی سرکار نے اپنی عوام کو مطمئن کرنے کی ایک اور کوشش کی جیسی وہ افضل گرو جیسے مسلمان کودے کر کرچکا ہے۔ میں ان کی پھانسی کی خبر سن کر یہ سوچ رہاتھا کہ جب برطانوی فوج دلی کا لال قلعے کا دروازہ توڑ کر اندد داخل ہوئی تو برصغیر پر مسلمانوں کی حکومت کاٹمٹاتاچراغ ہمیشہ کے لئے گل ہوگیا تھا ۔برطانوی فوج نے دلی کے چوکوں اور چوراہوں میں پھانسیاں دی تھیں بقول سرہنری کارٹن دلی کی فتح کی یادداشتوں میں لکھتاہے ”اورجب دلی فتح ہوئی تو جس کے منہ پر داڑھی ہوتی یا جس کا پائجامہ ٹخنوں سے اونچاہوتا اسے پکڑ کرتختہ دار پر لٹکا دیاجاتا”۔جس کو ہندوئوں نے جدید لحاظ سے استعمال کرتے ہوئے صرف نام ہی کافی ہے کے مصداق داڑھی یا شلوار ٹخنوں سے اوپر کو چھوڑ کر نام پرہی پھانسی دینا کاوطیرہ شروع کررکھا ہے ۔جس کی مثال افضل گرو،اجمل قصاب اور دیگر کئی ایسے گمنام نام ہیں جن سے میڈیا واقف نہیں ہوسکا اور کئی ایسے غیرمسلم ہیں جن کی پھانسی کے احکامات کے باوجود بھارت میں ان کی سزا عمرقید میں بدل دی ہے۔
تاریخ مجھے پکڑکر قیام پاکستا ن سے قبل 1864ء میں دلی میں لگی ایک عدالت میں لے چلتی ہے جس میں میں انبالہ کیس کی سماعت ہورہی ہے ۔ڈپٹی کمشنر کیپٹن ٹائی سن،پولیس کپتان پارس اور ڈی آئی جی میجر بفلیڈ کرسیوں پربراجمان نظر آتے ہیں اور ان کے سامنے مولانا محمدجعفر تھانیسری،مولانایحییٰ علی صادق پوری اور ان کے سات ساتھی ہتھکڑیو ں میں جکڑے ،پائوں میں بیڑیاں پہنے لائے جاتے ہیں۔منصوبے کی تفصیل پوچھنے پرانکارکی وجہ سے تشدد کا نشانہ تب تک بنایا جاتا ہے جب تک یہ لوگ بے ہوش نہیں ہوجاتے۔الغرض 2مئی 1864ء کو مولاناجعفر،مولانایحییٰ اور محمد شفیع کو پھانسی کی سزا اورلاشوں کو جیل میں ہی دفنانے کا حکم ملتا ہے جس پر تینوں مردان حُر نے وہیں سجدئہ شکراداکیا جس پر انگریز حیران رہ گئے اورڈپٹی کمشنر ان کو کہتا ہے کہ ہم تمہیں تمہاری مرغوب سزا(شہادت ) نہیں دیں گے بلکہ تم سب کالاپانی جائو گے ،عمربھرکے لئے ۔ان کے سرکے بال اور داڑھیاں صاف کردی جاتی ہیں ۔جس پرمولانا یحییٰ بال پکڑ کر فرماتے ہیں افسوس کس بات کا؟تو خدا کی راہ میں کاٹی گئی ہے۔
اس طرح کے مقدموں سے مسلمانوں کی تاریخ بھری پڑی ہے جس میں مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے ہیں اور آج بھی اس میں اضافہ ہورہاہے ۔پٹنہ کیس 1865ئ،راج محل کیس 1870ء ،انبالہ کیس 1871ء سے لے کر آج تک نہ جانے کتنے مردان حر اس راہ وفا میں اپنے نشان پاء چھوڑ کرامت کا قرض اداکررہے ہیں ۔سیداحمد شہید ،شاہ اسمٰعیل شہیداور ان کے رفقاء کا وہ قافلہ جو انہوں نے قیام پاکستان سے پہلے شروع کیا تھا ۔اور آج بھی اسلام کے نام لیوا کشمیر و فلسطین، افغانستان وعراق اور برما جیسے کئی ممالک میں شہادتوں کا سفر اسی آب وتاب سے جاری وساری رکھے ہوئے ہیں۔
Afzal Guru
معذرت !آج کا یہ کالم میں جذبات کی رومیں بہہ کر لکھ رہاہوں کیونکہ جب ہم نے پاکستان کے قیام کے کوششیں شروع کی تھیں تو دنیا ہم پر ہنستی تھی ہمارے کچھ اپنے ہی ہمیں مشوریہ دیتے تھے کہ پاکستان نہیں بن سکتا لیکن اسلام کے ان دیوانوں نے اپنی شہادتیں اور قربانیاں دے کر یہ ثابت کردیا کہ مسلمان کا عزم مصم ہو تو دنیاکی کوئی طاقت بھی اس کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی ۔چاہے وہ افضل گروہو یابنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما جنہیں پاکستان سے محبت کی سزا پھانسی کی صورت میں مل چکی ہے ان کا جرم صرف اور صرف مسلمان ہونا تھا ۔آج بھی کشمیر میں بھارت اپنی پوری طاقت سے کشمیری لوگوں کو کچلنے کی ناکام کوششوں میں مصروف عمل ہے جس میں اسے اسرائیل کی لاجسٹک سپورٹ بھی حاصل ہے لیکن اس سب کے باوجود کشمیری نا صر ف اپنے مئوقف پرقائم ہیں بلکہ شہادتوں کے سفر کے ساتھ ساتھ آزادی کاسفر بھی قریب آتاجارہاہے جس سے بھارت سمیت دوسرے اسلام وپاکستان دشمن قوتیں بری طرح حیران وپریشان ہیں۔
اب تو پھر بھارت میں خالصتان تحریک نے سر اٹھاکر بھارت کی پریشانیوں میں اضافہ کردیا ہے ۔بھارت میں جب بھی کوئی بڑا یاچھوٹا حادثہ رونما ہوتا ہے تو اس کے ڈانڈے پاکستانی خفیہ ایجنسی یا کسی پاکستانی سے ملادئیے جاتے ہیں ۔حالیہ گورداسپور واقعے کو ہی دیکھ لیں ابھی حملہ ہورہا تھااور ان کا میڈیا پاکستان پردھارنا شروع کردیتاہے اور چیخ رہاہے کہ یہ پاکستان نے کروایاہے وغیرہ وغیرہ۔کبھی وہ پاک فوج پر زبان درازی کرتے ہیں تو کبھی آئی ۔ایس ۔آئی پر تو کبھی کسی پاکستانی کے خلاف پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے ۔دکھ مجھے ان شہداء پرنہیں ہے کیونکہ مسلمان کے لئے شہادت اللہ کی طرف سے ایک خاص تحفہ ہے جو اللہ اپنے پسندیدہ بندوں کو عنایت فرماتا ہے ۔دکھ اس بات کا ہے کہ ہم میں ہی کچھ اٹھ کر ان شہداء کی قربانیوں پرانگلیاں اٹھارہے ہیں ان کے نزدیک ہر وہ بندہ دہشت گرد ہے جسے اقوام متحدہ ،امریکہ، بھارت یا اسرائیل دہشت گرد کہہ دیں۔
وہ میڈیا کی پروپیگنڈہ کی جنگ میں آکر اپنے ہی ہیروز کے خلاف لب کشائی کرکے دشمن کے ہاتھ جانے یا انجانے میں مضبوط کررہے ہیں ۔پاکستان ایک جذبہ ہے، ایک جنون ہے ،ایک امید ہے اور ایک نظریہ کی پیداوار ہے اور اس کی بنیاد اسلام پر ہے ۔پاکستانی مسلمان ہراس شخص کے ساتھ کھڑے ہیں جو محمدعربی ۖ کا کلمہ پڑھتاہے اور اسلامی تعلیمات پر حتی المقدور عمل پیراہونے کی کوشش کرتا ہے ۔چاہے وہ افغانی ہو ،فلسطینی ہو،برمی ہو کشمیری ہو ،برطانوی ہویا پھر امریکہ کارہائشی ہوکیونکہ پاکستان کلمے کی بنیاد پرقائم ہوا تھا ۔ہمارا کھاناپینا،اوڑھنا بچھونا، شکلیںرنگ ڈھنگ مختلف ہوسکتا ہے لیکن ایک بنیاد ایسی ہے جس سے ہم سب امت مسلمہ کا درد محسوس کرتے ہیں اور وہ بنیاد یہی کلمہ طیبہ ہے جوپاکستان کا نعرہ ہے ۔پاکستان کا مطلب کیا،لاالااللہ۔ اس لئے ساری دنیا کے مسلمانوں سے ہمارارشتہ اسی کلمہ کی بنیاد پر ہی ہے ۔شہادتوں کا یہ سفر اسلام کی پہلی شہادت سے لے کر اب تک جاری وساری ہے اور اسلام کے نام لیوا اسلام وپاکستان دشمنوں کے خلاف ضرب عضب جیسے آپریشن کے ذریعے اللہ کی اس زمین کو پا ک کرتے رہیں گے۔