برائی کے محور شیطان بزرگ میں دوستی

Iran Nuclear Deal

Iran Nuclear Deal

ابھی ہمارے کانوں میں مرگ بر امریکہ، مرگ بر اسرائیل اور مرگ بر ضد ِولایت فقیہ“ کے نعروں کی گونج باقی ہے، ابھی ہماری سماعتیں کو یادوں کی بھول بھلیوں سے محو بھی نہیں کرپائی تھیں کہ 24نومبر کو امریکہ کو ” شیطان بزرگ“ اور ایران کو” برائی کا محور “قرار دینے والوں کے درمیان جوہری معاہدہ کا طے پاجانا شدید حیرت و استعجاب کا باعث تھا۔ اتوار کے روز اُس وقت ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب یہ خبر سنی کہ جنیوا میں ایران اور 6عالمی طاقتوں امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، روس اور چین کے درمیان چار روز سے جاری رہنے والے مذاکرات کے بعد ایران کے ایٹمی پروگرام کے بارے معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے تحت ایران اپنا جوہری پروگرام محدود کر دے گا، معاہدہ کے تحت ایران یورینیم کی افزودگی کم سے کم سطح پر رول بیک کرے گا اورذخائر میں کمی کرتے ہوئے اپنی جوہری تنصیبات کو بروقت عالمی معائنہ کے لئے کھلا رکھے گا۔

اِس معاہدہ کے تحت ایران نے اِس بات پر بھی رضا مندی ظاہر کی کہ وہ 6 ماہ تک یورینیم کو 5فیصد سے زیادہ حد تک افزودہ نہیں کرے گا اور ایران ایٹمی توانائی کے عالمی ادارے (IAEA) کے انسپکٹرز کو اپنے نیو کلیئر پلانٹس کے روزانہ معائنہ کی اجاز ت دے گا۔ ایران نئے سینٹری فیوجز نہیں لگائے گا اور عالمی معائنہ کاروں کو” آراک“ کی جوہری تنصیبات تک رسائی بھی دے گا۔اِس کے عوض امریکہ سمیت عالمی برادری ایران کو 7ارب ڈالر کے حصول میں مدد دیں گے اور آئندہ 6ماہ تک ایران پر کوئی پابندی عائد نہیں کی جائے گی،تیل کی درآمد کی اجازت موجودہ حد تک برقرار رہے گی۔ ایران پر قیمتی دھاتوں اور فضائی کمپنیوں کے سلسلے میں پہلے سے عائد چند پابندیاں معطل کر دی جائیں گی اور ایرانی تیل کے منجمد اثاثے جو تقریباً 4 ارب بیس کروڑ ڈالر ہیں جاری کر دیئے جائیں گے۔

مذکورہ معاہدے کے حوالے سے ایران کو برائی کا محور قرار دینے والے امریکہ کے صدر اوباما کا کہنا ہے کہ یہ معاہدہ دنیا کو محفوظ بنانے اور جوہری تنازعہ کے جامع حل کی جانب اہم قدم ہے، اوباما کہتے ہیں کہ ہم ایران کے جوہری پروگرام کی صلاحیت کو محدود کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ہمارا مقصد مسئلہ کا پرامن حل تھا تا ہم معاہدہ کی خلاف ورزی پر ایران سے ریلیف واپس لے لیا جائے گا۔ایران کا جوہری پروگرام پر امن مقاصد کے لئے ہونا چاہیے۔ پر امن جوہری توانائی کا حصول ہر ملک کا حق ہے، ماضی میں کانگریس نے ایران پر پابندیاں عائد کیں لیکن یہ وقت ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے کا نہیں، ایران کو چاہیے کہ وہ معاہدہ پر عملدرآمد کرے۔ ایران کو دوبارہ عالمی برادری کا حصہ بننے پر فائدہ ہو گا۔ امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہم اقتدار میں آنے کے بعد ایران مسئلہ کا پر امن حل چاہتے تھے اور یہ معاہدہ ساری دنیا کے لئے ایک نیا آغاز ہو گا۔ معاہدے سے ایران کو تجارتی معاہدے جاری رکھنے کا موقع ملے گا۔ انہوں نے کہا کہ معاہدے کے تحت ایران نئے سینٹری فیوجز نصب نہیں کر ے گا، ایران ایٹمی توانائی کے اہل کاروں کو اپنی ایٹمی تنصیبات تک رسائی دے گا،ایران کو چاہیے کہ وہ معاہدہ پر عملدرآمد کو یقینی بنائے، معاہدہ کے نتیجہ میں ایران کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری نا ممکن ہو جائے گی۔

Hassan Rouhani

Hassan Rouhani

جبکہ ایرانی صدر حسن روحانی نے معاہدے پر دستخط کے بعد اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کی کامیابی کیلئے مذاکرات کاروں نے اہم کردار ادا کیا، معاہدے کے بعد نئے دور کاآغاز ہو گا۔ ایرانی صدرکا کہنا تھا کہ معاہدہ روشن خیال ایرانی عوام کی وجہ سے طے پایا، انہوں نے معاہدہ پر خوشی کا اظہار کیا۔ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے جنیوامیں پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ جوہری معاہدہ مسائل کے حل کی چابی ہے، ایران جوہری پروگرام کی پاسداری کرے گا، ان کا کہنا تھا کہ معاہدہ اہم پیش رفت ہے۔ دوسری طرف چین، امریکہ، برطانیہ، فرانس، روس اور جرمنی نے مذاکرات کے بعد اعلان کیا ہے کہ ایران کے ساتھ تاریخی جوہری معاہدہ طے پا گیا ہے، یورپی یونین ایرانی وزیر خارجہ اور فرانس نے اس معاہدہ کی تصدیق کی،برطانوی وزیر اعظم سے ملاقات کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا کہ معاہدہ کے بعد خطہ میں اسرائیل سمیت ہمارے اتحادی محفوظ ہو گئے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مقصد ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنا تھا۔ عالمی برادری کئی مرتبہ اپنے تحفظات کا اظہار کر چکی تھی۔ جان کیری نے بتایا کہ ایران کے پاس اب 19 ہزار سینٹری فیوجز ہیں، اگر ایران سے ایٹمی معاہدہ نہ ہوتا تو اس کا ایٹمی پروگرام مزید آگے بڑھ جاتا، امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے معاہدے سے اسرائیل کو محفوظ بنانے میں مدد ملے گی اور ایرانی جوہری پروگرام رول بیک ہو جائے گا۔اُن کا یہ بھی کہنا تھا اس مسئلے کے بارے میں اسرائیل اور امریکہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ”فیصلے“ اور ”اندازے“ کا معاملہ ہے۔

اُدھر روس اور چین نے بھی ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان اس کے جوہری پروگرام کے حوالے سے سمجھوتے کا خیر مقدم کیا اور دنیا بھر نے اس تاریخی معاہدے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے خوش آئند قراردیاہے،البتہ سعودی عرب نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران سے عالمی معاہدہ کی ناکامی کی صورت میں ریاض خاموش نہیں رہے گا اور ناکامی کی مضمرات کی ذمہ داری مغرب بالخصوص امریکہ اور برطانیہ پرعائد ہو گی، دوسری طرف اسرائیل نے معاہدے پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کر دیا ہے، اسرائیل کا کہنا ہے یہ معاہدہ تاریخی غلطی اور ایرانی فتح ہے ہم اسے ماننے کے پابند نہیں۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اس معاہدے پر سخت برا فروختہ ہیں اور کہتے ہیں کہ اسرائیلی ریاست، دنیا میں قوم یہود کی واحد ریاست ہے،اس لئے اس کے تحفظ کا ”مقدس فریضہ“ ہماری ذمہ داری ہے۔اسرائیلی وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ حسن روحانی بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا ہیں!۔حالانکہ یہ بات ساری دنیا جانتی ہے کہ اسرائیل خود ایک غیر اعلانیہ جوہری ریاست ہے،جس کے جوہری ترکش میں جوہری وار ہیڈز کی تعداد چین کے وارہیڈز سے بھی زیادہ ہیں۔ اَمر واقعہ یہ ہے کہ اسرائیل کو پاکستان، ایران اور اسلامی دنیا کی ایٹمی سرگرمیاں خار کی طرح چبھتی رہی ہیں،یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ اسرائیل نے بارہا بھارت اور امریکی قیادت کو اِن دو ممالک پر حملے کیلئے بھی اکسایا۔ شواہد بتاتے ہیں کہ جن دنوں امریکہ نے عراق اور بعد ازاں افغانستان کو اپنی جارحیت کا نشانہ بنایا تھا ،اُن دنوں بھی اسرائیل نے امریکہ پر دباو_¿ ڈالا تھا کہ پاکستان اور ایرانی جوہری پروگرام سے بھی نبٹ لیا جائے، لیکن امریکہ اسرائیلی دباؤ کے باوجود اس اقدام سے اس لیے باز رہا کہ یہ ممالک اُس کیلئے تر نوالہ ثابت نہیں ہوتے۔

ماضی میںاسرائیل نے بڑی شدومد کے ساتھ اس پروپیگنڈے سے مغربی دنیا کو خوفزدہ بھی کیا کہ ایران ایٹم بم بنانے کے لئے قریب پہنچ گیا ہے، اس پر مستزاد سابق ایرانی صدر محمود احمدی نڑاد کے بیانات تھے جن سے اسرائیل لرزہ براندام رہتا تھا کیونکہ وہ نہ تو اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے کے لئے تیار تھے اور نہ ہالو کاسٹ کے افسانوں کو درست مانتے تھے،اسی لئے خوفزدہ مغربی دنیا یہ سمجھتی تھی کہ جونہی ایران کے پاس ایٹمی ہتھیار آئے گا، وہ اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کی راہ پر چل پڑے گا،جبکہ اس کے برخلاف اسرائیل نے ایک زمانے میں بغداد پر فضا ئی حملہ کر کے عراق کا ایٹمی ری ایکٹر تباہ کر دیا تھا ،وہ ایسا ہی سلوک ایرانی ایٹمی پروگرام کے ساتھ بھی چاہتا تھا لیکن جب اُسے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل نہ ہوئی تو اُس نے معاہدے کو مسترد کر کے اپنی راہ پر چلنے کا اعلان کر دیا ہے۔ گو اس وقت ایران اورمغربی طاقتوں کے درمیان نئے جوہری معاہدے کے حوالے سے ماہرین پر امید ہیں کہ اِس سے جلد ہی خطے میں اقتصادی سرگرمیوں کا ایک نیا دور شروع ہوگا اور علاقائی تجارتی سرگرمیاں فروغ پائیں گی، کشیدگی کم ہوگی ا ور سفارتی سرگرمیوں کے نئے دور کا آغاز ہوگا جو خطے کو خوشحالی سے ہمکنار کرے گا،دوسری طرف ایران نے بھی اپنے حالیہ رویئے سے ثابت کیا ہے کہ کشیدگی تدبر کے ذریعے کم کی جاسکتی ہے۔ ایران نے محمود احمدی نڑادد کا دور بھی دیکھا مغربی دنیا اُن کی کھری باتوں سے بدکتی تھی اور وہ خود بھی دنیا کو خوفزدہ کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے تھے،آج ایران حسن روحانی کا دور دیکھ رہا ہے جو ماضی کی قیادتوں اور بالخصوص ایرانی انقلاب کے بانی آیت اللہ خمینی کے افکارونظریات سے یکسر مختلف ہے۔کل تک ایک دوسرے کو ”شیطان بزرگ“ اور ”برائی کا محور “ قرار دینے والے آج ایک ہی کشتی میں سوارایک دوسرے کے دوست ہیں، حالیہ ایرانی طرز عمل سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ اُس نے اپنے نعرے کے پہلے حصے ”مرگ بر امریکہ“کو پس پشت ڈال دیا ہے۔

Pakistan

Pakistan

یہ درست ہے کہ حالیہ جوہری معاہدے کے تناظر میں جہاں ایک دہائی سے جاری ایران امریکہ کشمکش کا خاتمہ ہوا ہے اور ایران اور ایرانی قوم کیلئے عالمی برادری سے ثمرات سمیٹنے کا موقع ملا ہے، وہیں اِس جوہری معاہدے سے پاکستان کیلئے نئے خطرات نے بھی جنم لیا ہے، اِس معاہدے نے پاکستان کیلئے خطرے کی ایسی گھنٹی بجادی ہے جو آنے والے دنوں میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خاتمے کیلئے امریکہ اور اُس کے اتحادی ممالک کا دباؤ بڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اس معاہدے سے پاکستان اور ایران گیس پائپ لائن کے منصوبے پر عملدرآمد کی راہ ہموار ہوئی ہے لیکن تصویر کا دوسرا رخ یہ کہتا ہے کہ اس معاہدے کے بعد پاکستان پر ایٹمی تنصیبات کے عالمی معائنے کیلئے دباؤ بڑھ جائے گا اور ایران کے بعد پاکستان سے بھی اس بات کا تقاضا کیا جائے گا، چنانچہ اس معاہدے کے اثرات کو وسیع تناظر میں دیکھنا ہو گا اور اگلے چھ ماہ اِس وجہ سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں کہ پاکستان کا پر امن ایٹمی پروگرام ہنود و یہود اور اسرائیل کے سینے میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔

تحریر: محمد احمد ترازی
mahmedtarazi@gmail.com